وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ أَإِذَا كُنَّا تُرَابًا أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ ۗ أُولَئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ ۖ وَأُولَئِكَ الْأَغْلَالُ فِي أَعْنَاقِهِمْ ۖ وَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿5﴾
‏ [جالندھری]‏ اگر تم عجیب بات سننی چاہو تو کافروں کا یہ کہنا عجیب ہے کہ جب ہم (مر کر) مٹی ہو جائیں گے تو کیا از سر نو پیدا ہونگے؟ یہی لوگ ہیں جو اپنے پروردگار سے منکر ہوئے ہیں۔ اور یہی ہیں جن کی گردنوں میں طوق ہونگے۔ اور یہی اہل دوزخ ہیں کہ ہمیشہ اس میں (جلتے) رہیں گے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
عقل کے اندھے ضدی لوگ 
اللہ تبارک وتعالی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ آپ ان کے جھٹلانے کا کوئی تعجب نہ کریں یہ ہیں ہی ایسے اس قدر نشانیاں دیکھتے ہوئے ، اللہ کی قدرت کا ہمیشہ مطالعہ کرتے ہوئے ، اسے مانتے ہوئے کہ سب کا خالق اللہ ہی ہے پھر بھی قیامت کے منکر ہوتے ہیں حالانکہ اس سے بڑھ کر روز مرہ مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ کچھ نہیں ہوتا اور اللہ تعالٰی سب کچھ کر دیتا ہے ۔ ہر عاقل جان سکتا ہے کہ زمین وآسمان کی پیدائش انسان کی پیدائش سے بہت بڑی ہے ۔ اور دوبارہ پیدا کرنا بہ نسبت اول بار پیدا کرنے کے بہت آسان ہے ۔ جیسے فرمان ربانی ہے آیت (اولم یروا ان اللہ الذی خلق السموات والارض ولم یعی بخلقھن بقادر علی ان یحی الموتی بل انہ علی کل شی قدیر ۔ )
یعنی جس نے آسمان و زمین تھکے پیدا کر دیا ، کیا وہ مردوں کو جلانے پر قادر نہیں ؟ بیشک ہے بلکہ ہر چیز اس کی قدرت میں ہے ۔ پس یہاں فرماتا ہے کہ اصل یہ کفار ہیں ، ان کی گردنوں میں قیامت کے دن طوق ہوں گے اور یہ جہنمی ہیں جو ہمیشہ جہنم میں رہیں گے ۔