وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِنْ رَبِّهِ ۗ إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ ۖ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ﴿7﴾
‏ [جالندھری]‏ اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ اس (پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) پر اس کے پروردگار کیطرف سے کوئی نشانی کیوں نازل نہیں ہوئی؟ سو (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) تم تو صرف ہدایت کرنے والے ہو اور ہر ایک قوم کیلئے رہنما ہوا کرتا ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
اعتراض برائے اعتراض
کافر لوگ ازروئے اعتراض کہا کرتے تھے کہ جس طرح اگلے پیغمبر معجزے لے کر آئے ، یہ پیغمبر کیوں نہیں لائے ؟ مثلا صفا پہاڑ سونے کا بنا دیتے یا مثلا عرب کے پہاڑ یہاں سے ہٹ جاتے اور یہاں سبزہ اور نہریں ہو جاتیں ۔ پس ان کے جواب میں اور جگہ ہے کہ ہم یہ معجزے بھی دکھا دیتے مگر اگلوں کی طرح ان کی جھٹلانے پر پھر اگلوں جیسے ہی عذاب ان پر آجاتے ۔ تو ان کی باتوں سے مغموم ومتفکر نہ ہو جایا کر ، تیرے ذمے تو صرف تبلیغ ہی ہے تو ہادی نہیں ، ان کے نہ ماننے سے تیری پکڑ نہ ہو گی ۔ ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے ، یہ تیرے بس کی بات نہیں ۔ ہر قوم کے لئے رہبر اور داعی ہے ۔ یا یہ مطلب ہے کہ ہادی میں ہوں تو تو ڈرانے والا ہے ۔ اور آیت میں (وان من امتہ الا خلا فیہا نذیر) ہر امت میں ڈرانے والا گزرا ہے اور مراد یہاں ہادی سے پیغمبر ہے ۔ پس پیشوا رہبر ہر گروہ میں ہوتا ہے ، جس کے علم وعمل سے دوسرے راہ پا سکیں ، اس امت کے پیشوا آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ایک نہایت ہی منکر واہی روایت میں ہے کہ اس آیت کے اترنے کے وقت آپ نے اپنے سینہ پر ہاتھ رکھ کے فرمایا منذر تو میں ہوں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کندھے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اے علی تو ہادی ہے ، میرے بعد ہدایات پانے والے تجھ سے ہدایت پائیں گے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے کہ اس جگہ ہادی سے مراد قریش کا ایک شخص ہے ۔ جنید کہتے ہیں وہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ خود ہیں ۔ ابن جریر رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہادی ہونے کی روایت کی ہے لیکن اس میں سخت نکارت ہے ۔