لَهُ دَعْوَةُ الْحَقِّ ۖ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ لَا يَسْتَجِيبُونَ لَهُمْ بِشَيْءٍ إِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهِ ۚ وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ ﴿14﴾
‏ [جالندھری]‏ سودمند پکارنا تو اسی کا ہے۔ اور جن کو یہ لوگ اس کے سوا پکارتے ہیں وہ ان کی پکار کو کسی طرح قبول نہیں کرتے۔ مگر اس شخص کی طرح جو اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلا دے تاکہ (دو رہی سے) اس کے منہ تک آپہنچے۔ حالانکہ وہ (اس تک کبھی بھی) نہیں آسکتا۔ اور (اسی طرح) کافروں کی پکار بیکار ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
دعوت حق
حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ کے لئے دعوت حق ہے ، اس سے مراد توحید ہے ۔ محمد بن منکدر کہتے ہیں مراد لا الہ الا اللہ ہے ۔ پھر مشرکوں کافروں کی مثال بیان ہوئی کہ جیسے کوئی شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلائے ہوئے ہو کہ اس کے منہ میں خود بخود پہنچ جائے تو ایسا نہیں ہونے کا ۔ اسی طرح یہ کفار جنہیں پکارتے ہیں اور جن سے امیدیں رکھتے ہیں ، وہ ان کی امیدیں پوری نہیں کرنے کے ۔ اور یہ مطلب بھی ہے کہ جیسے کوئی اپنی مٹھیوں میں پانی بند کر لے تو وہ رہنے کا نہیں ۔ پس باسط قابض کے معنی میں ہے ۔ عربی شعر میں بھی قابض ماء آیا ہے پس جیسے پانی مٹھی میں روکنے والا اور جیسے پانی کی طرف ہاتھ پھیلانے والا پانی سے محروم ہے ، ایسے ہی یہ مشرک اللہ کے سوا دوسروں کو گو پکاریں لیکن رہیں گے محروم ہی دین دنیا کا کوئی فائدہ انہیں نہ پہنچے گا ۔ ان کی پکار بےسود ہے ۔