قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلِ اللَّهُ ۚ قُلْ أَفَاتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ لَا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ نَفْعًا وَلَا ضَرًّا ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ أَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ ۗ أَمْ جَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ خَلَقُوا كَخَلْقِهِ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ ۚ قُلِ اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ﴿16﴾
‏ [جالندھری]‏ ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کا پروردگار کون ہے؟ (تم ہی انکی طرف سے) کہہ دو کہ خدا۔ پھر (ان سے) کہو کہ تم نے خدا کو چھوڑ کر ایسے لوگوں کو کیوں کارساز بنایا ہے جو خود اپنے نفع و نقصان کا بھی کچھ اختیار نہیں رکھتے؟ (یہ بھی) پوچھو کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہیں؟ یا اندھیرا اور اجالا برابر ہو سکتا ہے؟ بھلا ان لوگوں نے جن کو خدا کا شریک مقرر کیا ہے۔ کیا انہوں نے خدا کی سی مخلوقات پیدا کی ہے جس کے سبب ان کو مخلوقات مشتبہ ہوگئی ہے؟ کہہ دو کہ خدا ہی ہرچیز کا پیدا کرنیوالا ہے اور وہ یکتا (اور) زبردست ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
اندھیرا اور روشنی
اللہ تعالٰی کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ۔ یہ مشرکین بھی اس کے قائل ہیں کہ زمین وآسمان کا رب اور مدبر اللہ ہی ہے ۔ اس کے باوجود دوسرے اولیا کی عبادت کرتے ہیں حالانکہ وہ سب عاجز بندے ہیں ۔ ان کے تو کیا خود اپنے بھی نفع نقصان کا انہیں کوئی اختیار نہیں پس یہ اور اللہ کے عابد یکساں نہیں ہو سکتے ۔ یہ تو اندھیروں میں ہیں اور بندہ رب نور میں ہے ۔ جتنا فرق اندھے میں اور دیکھنے والے میں ہے ، جتنا فرق اندھیروں اور روشنی میں ہے اتنا ہی فرق ان دونوں میں ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ کیا ان مشرکین کے مقرر کردہ شریک اللہ ان کے نزدیک کسی چیز کے خالق ہیں ؟ کہ ان پر تمیز مشکل ہو گئی کہ کسی چیز کا خالق اللہ ہے ؟ اور کس چیز کے خالق ان کے معبود ہیں ؟ حالانکہ ایسا نہیں اللہ کے مشابہ اس جیسا اس کے برابر کا اور اس کی مثل کا کوئی نہیں ۔ وہ وزیر سے ، شریک سے ، اولاد سے ، بیوی سے ، پاک ہے اور ان سب سے اس کی ذات بلند و بالا ہے۔ یہ تو مشرکین کی پوری بیوقوفی ہے کہ اپنے چھوٹے معبودوں کو اللہ کا پیدا کیا ہوا ، اس کی مملوک سمجھتے ہوئے پھر بھی ان کی پوجا پاٹ میں لگے ہوئے ہیں ۔ لبیک پکارتے ہوئے کہتے ہیں کہ یا اللہ ہم حاضر ہوئے تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ شریک کہ وہ خود تیری ملکیت میں ہے اور جس چیز کا وہ مالک ہے ، وہ بھی دراصل تیری ہی ملکیت ہے ۔ قرآن نے اور جگہ ان کا مقولہ بیان فرمایا ہے کہ آیت (ما نعبدھم الا لیقربونا الی اللہ ذلفی) یعنی ہم تو ان کی عبادت صرف اس لالچ میں کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں ۔ ان کے اس اعتقاد کی رگ گردن توڑتے ہوئے ارشاد ربانی ہوا کہ اس کے پاس کوئی بھی اس کی اجازت بغیر لب نہیں ہلا سکتا ۔ آسمانوں کے فرشتے بھی شفاعت اس کی اجازت بغیر کر نہیں سکتے ۔ سورۃ مریم میں فرمایا زمین وآسمان کی تمام مخلوق اللہ کے سامنے غلام بن کر آنے والی ہے، سب اس کی نگاہ میں اور اس کی گنتی میں ہیں اور ہر ایک تنہا تنہا اس کے سامنے قیامت کے دن حاضری دینے والا ہے ۔ پس جبکہ سب کے سب بندے اور غلام ہونے کی حیثیت میں یکساں ہیں پھر ایک کا دوسرے کی عبادت کرنا بڑی حماقت اور کھلی بے انصافی نہیں تو اور کیا ہے ؟ پھر اس نے رسولوں کا سلسلہ شروع دنیا سے جاری رکھا ۔ ہر ایک نے لوگوں کو سبق یہ دیا کہ اللہ ایک ہی عبادت کے لائق ہے ۔ اس کے سوا کوئی اور عبادت کے لائق نہیں لیکن انہوں نے نہ اپنے اقرار کا پاس کیا نہ رسولوں کی متفقہ تعلیم کا لحاظ کیا ، بلکہ مخالفت کی ، رسولوں کو جھٹلایا تو کلمہ عذاب ان پر صادق آ گیا ۔ یہ رب کا ظلم نہیں۔