اللَّهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ وَفَرِحُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مَتَاعٌ ﴿26﴾
‏ [جالندھری]‏ خدا جس کا چاہتا ہے رزق فراخ کر دیتا ہے اور (جس کا چاہتا ہے) تنگ کردیتا ہے۔ اور (کافر لوگ) دنیا کی زندگی پر خوش ہو رہے ہیں۔ اور دنیا کی زندگی آخرت (کے مقابلے) میں (بہت) تھوڑا فائدہ ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
مسئلہ رزق 
اللہ جس کی روزی میں کشادگی دینا چاہے قادر ہے ، جسے تنگ روزی دینا چاہے قادر ہے ، یہ سب کچھ حکمت وعدل سے ہو رہا ہے ۔ کافروں کو دنیا پر ہی سہارا ہو گیا ۔ یہ آخرت سے غافل ہو گئے سمجھنے لگے کہ یہاں رزق کی فراوانی حقیقی اور بھلی چیز ہے حالانکہ دراصل یہ مہلت ہے اور آہستہ پکڑ کی شروع ہے لیکن انہیں کوئی تمیز نہیں ۔ مومنوں کو جو آخرت ملنے والی ہے اس کے مقابل تو یہ کوئی قابل ذکر چیز نہیں یہ نہایت ناپائیدار اور حقیر چیز ہے آخرت بہت بڑی اور بہتر چیز ۔ لیکن عموما لوگ دینا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کلمہ کی انگلی سے اشارہ کر کے فرمایا کہ اسے کوئی سمندر میں ڈبو لے اور دیکھے کہ اس میں کتنا پانی آتا ہے ؟ جتنا یہ پانی سمندر کے مقابلے پر ہے اتنی ہی دنیا آخرت کے مقابلے میں ہے (مسلم ) ایک چھوٹے چھوٹے کانوں والے بکری کے مرے ہوئے بچے کو راستے میں پڑا ہوا دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جیسا یہ ان لوگوں کے نزدیک ہے جن کا یہ تھا اس سے بھی زیادہ بےکار اور ناچیز اللہ کے سامنے ساری دنیا ہے ۔