كَذَلِكَ أَرْسَلْنَاكَ فِي أُمَّةٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهَا أُمَمٌ لِتَتْلُوَ عَلَيْهِمُ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَهُمْ يَكْفُرُونَ بِالرَّحْمَنِ ۚ قُلْ هُوَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتَابِ ﴿30﴾
‏ [جالندھری]‏ (جس طرح ہم اور پیغمبر بھیجتے رہے ہیں) اسی طرح (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) ہم نے تم کو اس امت میں جس سے پہلے بہت سی امتیں گزر چکی ہیں بھیجا ہے تاکہ ان کو وہ (کتاب) جو ہم نے تمہاری طرف بھیجی ہے پڑھ کر سنا دو۔ اور یہ لوگ رحمن کو نہیں مانتے۔ کہہ دو وہی تو میرا پروردگار ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ میں اسی پر بھروسا رکھتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حوصلہ افزائی 
ارشاد ہوتا ہے کہ جیسے اس امت کی طرف ہم نے تجھے بھیجا کہ تو انہیں کلام الہٰی پڑھ کر سنائے ، اسی طرح تجھ سے پہلے اور رسولوں کو ان اگلی امتوں کی طرف بھیجا تھا انہوں نے بھی پیغام الہٰی اپنی اپنی امتوں کو پہنچایا مگر انہوں نے جھٹلایا اسی طرح تو بھی جھٹلایا گیا تو تجھے تنگ دل نہ ہونا چاہئے ۔ ہاں ان جھٹلانے والوں کو ان کا انجام دیکھنا چاہئے جو ان سے پہلے تھے کہ عذاب الہٰی نے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا پس تیری تکذیب تو ان کی تکذیب سے بھی ہمارے نزدیک زیادہ ناپسند ہے ۔ اب یہ دیکھ لیں کہ ان پر کیسے عذاب برستے ہیں؟ یہی فرمان آیت (تاللہ لقد ارسلنا) الخ میں اور آیت (ولقد کذبت رسل) میں ہے کہ دیکھ لے ہم نے اپنے والوں کی کس طرح امداد فرمائی ؟ اور انہیں کیسے غالب کیا ؟ تیری قوم کو دیکھ کر رحمن سے کفر کر رہی ہے ۔ وہ اللہ کے وصف اور نام کو مانتی ہی نہیں ۔ حدیبیہ کا صلح نامہ لکھتے وقت اس پر بضد ہو گئے کہ ہم آیت ( بسم اللہ الرحمن الرحیم) نہیں لکھنے دیں گے ۔ ہم نہیں جانتے کہ رحمن اور رحیم کیا ہے ؟ پوری حدیث بخاری میں موجود ہے ۔ قرآن میں ہے آیت (قل ادعوا اللہ او ادعوا الرحمن) الخ ، اللہ کہہ کر اسے پکارو یا رحمن کہہ کر جس نام سے پکارو وہ تمام بہترین ناموں والا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کے نزدیک عبداللہ اور عبدالرحمن نہایت پیارے نام ہیں ۔ فرمایا جس سے تم کفر کر رہے ہو میں تو اسے مانتا ہوں وہی میرا پروردگار ہے میرے بھروسے اسی کے ساتھ ہیں اسی کی جانب میری تمام تر توجہ اور رجوع اور دل کا میل اس کے سوا کوئی ان باتوں کا مستحق نہیں ۔