وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً ۚ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَنْ يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ ﴿38﴾
‏ [جالندھری]‏ اور (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) ہم نے تم سے پہلے بھی پیغمبر بھیجے تھے اور ان کو بیبیاں اور اولاد بھی دی تھی۔ اور کسی پیغمبر کے اخیتار کی بات نہ تھی کہ خدا کے حکم کے بغیر کوئی نشانی لائے۔ ہر (حکم) قضاُ (کتاب میں) مرقوم ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
ہر کام کا وقت مقرر ہے 
ارشاد ہے کہ جیسے آپ باوجود انسان ہونے کے رسول اللہ ہیں ۔ ایسے ہی آپ سے پہلے کے تمام رسول بھی انسان ہی تھے ، کھانا کھاتے تھے ، بازاروں میں چلتے پھرتے تھے بیوی ، بچوں والے تھے ۔ اور آیت میں ہے کہ اے اشرف الرسل آپ لوگوں سے کہہ دیجئے کہ آیت (انما انا بشر مثلکم یوحی الی) میں بھی تم جیسا ہی ایک انسان ہوں میری طرف وحی الہٰی کی جاتی ہے ۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نفلی روزے رکھتا بھی ہوں اور نہیں بھی رکھتا راتوں کو تہجد بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں گوشت بھی کھاتا ہوں اور عورتوں سے بھی ملتا ہوں جو شخص میرے طریقے سے منہ موڑ لے وہ میرا نہیں ۔ مسند احمد میں آپ کا فرمان ہے کہ چار چیزیں تمام انبیاء کا دریقہ رہیں خوشبو لگانا ، نکاح کرنا ، مسواک کرنا اور مہندی ، پھر فرماتا ہے کہ معجزے ظاہر کرنا کسی نبی کے بس کی بات نہیں ۔ یہ اللہ عزوجل کے قبضے کی چیز ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ، جو ارادہ کرتا ہے حکم دیتا ہے ہر ایک بات مقررہ وقت اور معلوم مدت کتاب میں لکھی ہوئی ہے ، ہر شے کی ایک مقدار معین ہے ۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ زمین و آسمان کی تمام چیزوں کا اللہ کو علم ہے سب کچھ کتاب میں لکھا موجود ہے یہ تو اللہ پر بہت ہی آسان ہے ۔ ہر کتاب کی جو آسمان سے اتری ہے اس کی ایک اجل ہے اور ایک مدت مقرر ہے ان میں سے جسے چاہتا ہے منسوخ کر دیتا ہے جسے چاہتا ہے باقی رکھتا ہے پس اس قرآن سے جو اس نے اپنے رسول صلوات اللہ وسلامہ علیہ پر نازل فرمایا ہے تمام اگلی کتابیں منسوخ ہو گئیں ۔ اللہ تعالٰی جو چاہے مٹائے جو چاہے باقی رکھے سال بھر کے امور مقرر کر دئے لیکن اختیار سے باہر نہیں جو چاہا باقی رکھا جو چاہا بدل دیا ۔ سوائے شقاوت ، سعادت ، حیات و ممات کے ۔ کہ ان سے فراغت حاصل کر لی گئی ہے ان میں تغیر نہیں ہونا ۔ منصور کہتے ہیں میں نے حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ ہم میں سے کسی کا یہ دعا کرنا کیسا ہے کہ الہٰی اگر میرا نام نیکوں میں ہے تو باقی رکھ اور اگر بدوں میں ہے تو اسے ہٹا دے اور نیکوں میں کر دے ۔ آپ نے فرمایا یہ تو اچھی دعا ہے سال بھر کے بعد پھر ملاقات ہوئی یا کچھ زیادہ عرصہ گزر گیا تھا تو میں نے ان سے یہی بات دریافت کی آپ نے آیت (انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ) سے دو آیتوں کی تلاوت کی اور فرمایا لیلۃ القدر میں سال بھر کی روزیاں ، تکلیفیں مقرر ہو جاتی ہیں ۔ پھر جو اللہ چاہے مقدم موخر کرتا ہے ، ہاں سعادت شقاوت کی کتاب نہیں بدلتی ۔ حضرت شفیق بن سلمہ اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے اے اللہ اگر تو نے ہمیں بدبختوں میں لکھا ہے تو اسے مٹار دے اور ہماری گنتی نیکوں میں لکھ لے اور اگر تو نے ہمیں نیک لوگوں میں لکھا ہے تو اسے باقی رکھ تو جو چاہے مٹا دے اور جو چاہے باقی رکھے اصل کتاب تیرے ہی پاس ہے ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیت اللہ شریف کا طواف کرتے ہوئے روتے روتے یہ دعا پڑھا کرتے تھے اے اللہ اگر تو نے مجھ پر برائی اور گناہ لکھ رکھے ہیں تو انہیں مٹا دے تو جسے چاہے مٹاتا ہے اور باقی رکھتا ہے ام الکتاب تیرے پاس ہی ہے تو اسے سعادت اور رحمت کر دے ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھی یہی دعا کیا کرتے تھے ۔ کعب رحمۃ اللہ علیہ نے امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا کہ اگر ایک آیت کتاب اللہ میں نہ ہوتی تو میں قیامت تک جو امور ہونے والے ہیں سب آپ کو بتا دیتا پوچھا کہ وہ کون سی آیت ہے آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ ان تمام اقوال کا مطلب یہ ہے کہ تقدیر کی الٹ پلٹ اللہ کے اختیار کی چیز ہے ۔ چنانچہ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ بعض گناہوں کی وجہ سے انسان اپنی روزی سے محروم کر دیا جاتا ہے اور تقدیر کو دعا کے سوا کوئی چیز بدل نہیں سکتی اور عمر کی زیادتی کرنے والی بجز نیکی کے کوئی چیز نہیں ۔ نسائی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔ اور صحیح حدیث میں ہے کہ صلہ رحمی عمر بڑھاتی ہے ۔ اور حدیث میں ہے کہ دعا اور قضا دونوں کی مڈ بھیڑ آسمان و زمین کے درمیان ہوتی ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ عزوجل کے پاس لوح محفوظ ہے جو پانچ سو سال کے راستے کی چیز ہے سفید موتی کی ہے یاقوت کے دو پٹھوں کے درمیان ۔ تریسٹھ بار اللہ تعالٰی اس پر توجہ فرماتا ہے ۔ جو چاہتا ہے مٹاتا ہے جو چاہتا ہے برقرار رکھتا ہے ام الکتاب اسی کے پاس ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ رات کی تین ساعتیں باقی رہنے پر دفتر کھولا جاتا ہے پہلی ساعت میں اس دفتر پر نظر ڈالی جاتی ہے جسے اس کے سوا کوئی اور نہیں دیکھتا پس جو چاہتا ہے مٹاتا ہے جو چاہتا ہے برقرار رکھتا ہے ۔ کلبی فرماتے ہیں روزی کو بڑھانا گھٹانا عمر کو بڑھانا گھٹانا اس سے مراد ہے ان سے پوچھا گیا کہ آپ سے یہ بات کس نے بیان کی ؟ فرمایا ابو صالح نے ان سے حضرت جابر بن عبداللہ بن رباب نے ان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ۔ پھر ان سے اس آیت کی بابت سوال ہوا تو جواب دیا کہ جمعرات کے دن سب باتیں لکھی جاتی ہیں ان میں سے جو باتیں جزا سزا سے خالی ہوں نکال دی جاتی ہیں جیسے تیرا یہ قول کہ میں نے کھایا میں نے پیا میں آیا میں گیا وغیرہ جو سچی باتیں ہیں اور ثواب عذاب کی چیزیں نہیں اور باقی جو ثواب عذاب کی چیزیں ہیں وہ رکھ لی جاتی ہیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول ہے کہ جو کتابیں ہیں ایک میں کمی زیادتی ہوتی ہے اور اللہ کے پاس ہے اصل کتاب وہی ہے فرماتے ہیں مراد اس سے وہ شخص ہے جو ایک زمانے تک تو اللہ کی اطاعت میں لگا رہتا ہے پھر معصیت میں لگ جاتا ہے اور اسی پر مرتا ہے پس اس کی نیکی محو ہو جاتی ہے اور جس کے لئے ثابت رہتی ہے ۔ یہ وہ ہے جو اس وقت تو نافرمانیوں میں مشغول ہے لیکن اللہ کی طرف سے ، اس کے لئے فرمانبرداری پہلے سے مقرر ہو چکی ہے ۔ پس آخری وقت وہ خیر پر لگ جاتا ہے اور طاعت الہٰی میں مرتا ہے ۔ یہ ہے جس کے لئے فرمانبرداری پہلے سے مقرر ہو چکی ہے ۔ پس آخری وقت وہ خیر پر لگ جاتا ہے اور طاعت الہٰی میں مرتا ہے ۔ یہ ہے جس کے لئے ثابت رہتی ہے ۔ سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جسے چاہے بخشے جسے چاہے نہ بخشے ۔ ابن عباس کا قول ہے جو چاہتا ہے منسوخ کرتا ہے جو چاہتا ہے تبدیل نہیں کرتا ناسخ کا اختیار اسی کے پاس ہے اور اول بدل بھی ۔ بقول قتادہ یہ آیت مثل آیت (ما ننسخ الخ ، کے ہے یعنی جو چاہے منسوخ کر دے جو چاہے باقی اور جاری رکھے ۔ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب اس سے پہلے کی آیت اتری کہ کوئی رسول بغیر اللہ کے فرمان کے کوئی معجزہ نہیں دکھا سکتا تو قریش کے کافروں نے کہا پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم بالکل بےبس ہیں کام سے تو فراغت حاصل ہو چکی ہے پس انہیں ڈرانے کے لئے یہ آیت اتری کہ ہم جو چاہیں تجدید کر دیں ہر رمضان میں تجدید ہوتی ہے پھر اللہ جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے جو چاہتا ہے ثابت رکھتا ہے روزی بھی تکلیف بھی دیتا ہے اور تقسیم بھی ۔ حسن بصری فرماتے ہیں جس کی اجل آ جائے چل بستا ہے نہ آئی ہو رہ جاتا ہے یہاں تک کہ اپنے دن پورے کر لے ۔ ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ اسی قول کو پسند فرماتے ہیں ۔ حلال حرام اس کے پاس ہے کتاب کا خلاصہ اور جڑ اسی کے ہاتھ ہے کتاب خود رب العلمین کے پاس ہی ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کعب سے ام الکتاب کی بابت دریافت کیا تو آپ نے جواب دیا کہ اللہ نے مخلوق کو اور مخلوق کے اعمال کو جان لیا۔ پھر کہا کہ کتاب کی صورت میں ہو جائے ہو گیا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں ام الکتاب سے مراد ذکر ہے ۔