وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ ۖ فَيُضِلُّ اللَّهُ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿4﴾
‏ [جالندھری]‏ اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان بولتا تھا تاکہ انہیں (احکام خدا) کھول کھول کر بتا دے۔ پھر خدا جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ اور وہ غالب اور حکمت والا ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
ہر قوم کی اپنی زبان میں رسول
یہ اللہ تعالٰی جل شانہ کی انتہائی درجے کی مہربانی ہے کہ ہر نبی کو اس کی قومی زبان میں ہی بھیجا تاکہ سمجھنے سمجھانے کی آسانی رہے ۔ مسند میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر نبی رسول کو اللہ تعالٰی نے اس کی امت کی زبان میں ہی بھیجا ہے ۔ حق ان پر کھل تو جاتا ہی ہے پھر ہدایت ضلالت اللہ کی طرف سے ہے، اس کے چاہنے کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا ۔ وہ غالب ہے ، اس کا ہر کام حکمت سے ہے ، گمراہ وہی ہوتے ہیں جو اس کے مستحق ہوں اور ہدایت پر وہی آتے ہیں جو اس کے مستحق ہوں ۔ چونکہ ہر نبی صرف اپنی اپنی قوم ہی کی طرف بھیجا جاتا رہا اس لئے اسے اس کی قومی زبان میں ہی کتاب اللہ ملتی تھی اور اس کی اپنی زبان بھی وہی ہوتی تھی ۔ آنحضرت محمد بن عبداللہ علیہ صلوات اللہ کی رسالت عام تھی ساری دنیا کی سب قوموں کی طرف آپ رسول اللہ تھے جیسے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مجھے پانچ چیزیں خصوصیت سے دی گئی ہیں جو کسی نبی کو عطا نہیں ہوئیں مہینے بھر کی راہ کی دوری پر صرف رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے ، میرے لئے ساری زمین مسجد اور پاکیزہ قرار دی گئی ہے ، مجھ پر مال غنیمت حلال کئے گئے ہیں جو مجھ سے پہلے کسی پر حلال نہیں تھے ، مجھے شفاعت سونپی گئی ہے ہر نبی صرف اپنی قوم ہی کی طرف آتا تھا اور میں تمام عام لوگوں کی طرف رسول اللہ بنایا گیا ہوں ۔ قرآن یہی فرماتا ہے کہ اے نبی اعلان کر دو کہ میں تم سب کی جانب اللہ کا رسول ہوں صلی اللہ علیہ وسلم۔