وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ أَنْجَاكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَيُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَلِكُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ ﴿6﴾
‏ [جالندھری]‏ اور جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ خدا نے جو تم پر مہربانیاں کی ہیں ان کو یاد کرو جبکہ تم کو فرعون کی قوم (کے ہاتھ) سے مخلصی دی۔ وہ لوگ تمہیں بڑے عذاب دیتے تھے اور تمہارے بیٹوں کو مار ڈالتے تھے اور عورت ذات یعنی تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے۔ اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی (سخت) آزمائش تھی۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
اولاد کا قاتل
فرمان الہٰی کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو اللہ کی نعمتیں یاد دلا رہے ہیں ۔ مثلا قوم فرعون سے انہیں نجات دلوانا جو انہیں بےوقعت کر کے ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھا رہے تھے یہاں تک کہ تمام نرینہ اولاد قتل کر ڈالتے تھے صرف لڑکیوں کو زندہ چھوڑتے تھے ۔ یہ نعمت اتنی بڑی ہے کہ تم اس کی شکر گزاری کی طاقت نہیں رکھتے ۔ یہ مطلب بھی اس جملے کا ہو سکتا ہے کہ فرعونی ایذاء دراصل تمہاری ایک بہت بڑی آزمائش تھی اور یہ بھی احتمال ہے کہ دونوں معنی مراد ہوں ، واللہ اعلم ۔ جیسے فرمان ہے آیت (وبلونا ھم بالحسنات والسیات لعلہم یرجعون) یعنی ہم نے انہیں بھلائی برائی سے آزما لیا کہ وہ لوٹ آئیں ۔ جب اللہ تعالٰی نے تمہیں آگاہ کر دیا ۔ اور یہ معنی بھی ممکن ہیں کہ جب اللہ تعالٰی نے قسم کھائی اپنی عزت و جلالت اور کبریائی کی ۔ جیسے آیت (واذ تاذن ربک لیبعثن) الخ ، میں ۔ پس اللہ کا حتمی وعدہ ہوا اور اس کا اعلان بھی کہ شکر گزاروں کی نعمتیں اور بڑھ جائیں گی اور ناشکروں کی نعمتوں کے منکروں اور ان کے چھپانے والوں کی نعمتیں اور چھن جائیں گی اور انہیں سخت سزا ہو گی ۔ حدیث میں ہے بندہ بوجہ گناہ کے اللہ کی روزی سے محروم ہو جاتا ہے ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک سائل گزرا ، آپ نے اسے ایک کھجور دی ۔ وہ بڑا بگڑا اور کجھور نہ لی ۔ پھر دوسرا سائل گزرا آپ نے اسے بھی وہی کجھور دی اس نے اسے بخوشی لے لیا اور کہنے لگا کہ اللہ کے رسول کا عطیہ ہے ۔ آپ نے اسے بیس درہم دینے کا حکم فرمایا ۔ اور روایت میں ہے کہ آپ نے لونڈی سے فرمایا اسے لے جاؤ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس چالیس درہم ہیں وہ اسے دلوا دو ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ تم سب اور روئے زمین کی تمام مخلوق بھی ناشکری کرنے لگے تو اللہ کا کیا بگاڑے گا ؟ وہ بندوں سے اور ان کی شکر گزاری سے بےنیاز اور بےپرواہ ہے ۔ تعریفوں کا مالک اور قابل وہی ہے ۔ چنانچہ فرمان ہے آیت (ان تکفروا فان اللہ غنی عنکم) تم اگر کفر کرو تو اللہ تم سے غنی ہے اور آیت میں ہے آیت (فکفروا وتولوا واستغنی اللہ) الخ، انہوں نے کفر کیا منہ موڑ لیا تو اللہ نے ان سے مطلقا بےنیازی برتی ۔ صحیح مسلم شریف میں قدسی حدیث ہے کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے اے میرے بندو اگر تمہارے اول آخر انسان جن سب مل کر بہترین تقوے والے دل کے شخص جیسے بن جائیں تو اس سے میرا ملک ذرا سا بھی بڑھ نہ جائے گا اور اگر تمہارے سب اگلے پچھلے انسان جنات بدترین دل کے بن جائیں تو اس وجہ سے میرے ملک میں سے ایک ذرہ بہی نہ گھٹے گا ۔ اے میرے بندو اگر تمہارے اگلے پچھلے انسان جن سب ایک میدان میں کھڑے ہو جائیں اور مجھ سے مانگیں اور میں ہر ایک کا سوال پورا کر دوں تو بھی میرے پاس کے خزانوں میں اتنی ہی کمی آئے گی جتنی کمی سمندر میں سوئی ڈالنے سے ہو ۔ پس ہمارا رب پاک ہے بلند ہے غنی ہے اور حمید ہے ۔