أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ ۛ وَالَّذِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ ۛ لَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا اللَّهُ ۚ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ وَقَالُوا إِنَّا كَفَرْنَا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ وَإِنَّا لَفِي شَكٍّ مِمَّا تَدْعُونَنَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ ﴿9﴾
‏ [جالندھری]‏ بھلا تم کو ان لوگوں (کے حالات) کی خبر نہیں پہنچی جو تم سے پہلے تھے (یعنی) نوح علیہ السلام اور عاد و ثمود کی قوم؟ اور جو ان کے بعد تھے جن کا علم خدا کے سوا کسی کو نہیں (جب) ان کے پاس پیغمبر نشانیاں لے کر آئے تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دیے (کہ خاموش رہو) اور کہنے لگے کہ ہم تو تمہاری رسالت کو تسلیم نہیں کرتے۔ اور جس چیز کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو ہم اس سے قوی شک ہیں۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا باقی وعظ بیان ہو رہا ہے کہ آپ نے اپنی قوم کو اللہ کی وہ نعمتیں یاد دلاتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو تم سے پہلے کے لوگوں پر رسولوں کے جھٹلانے کی وجہ سے کیسے سخت عذاب آئے ؟ اور کس طرح وہ غارت کئے گئے ؟ یہ قول تو ہے امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کا لیکن ذرا غور طلب ہے ۔ بظاہر تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ وعظ تو ختم ہو چکا اب یہ نیا بیان قرآن ہے ۔ کہا گیا ہے کہ عادیوں اور ثمودیوں کے واقعات تورات شریف میں تھے اور یہ دونوں واقعات بھی تورات میں تھے واللہ اعلم ۔ فی الجملہ ان لوگوں کے اور ان جیسے اور بھی بہت سے لوگوں کے واقعات قرآن کریم میں ہمارے سامنے بیان ہو چکے ہیں کہ ان کے پاس اللہ کے پیغمبر اللہ کی آیتیں اور اللہ کے دیئے ہوئے معجزے لے کر پہنچے ان کی گنتی کا علم صرف اللہ ہی کو ہے ۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں نسب کے بیان کرنے والے غلط گو ہیں بہت سے لوگوں کے واقعات قرآن کریم میں ہمارے سامنے بیان ہو چکے ہیں کہ ان کے پاس اللہ کے پیغمبر اللہ کی آیتیں اور اللہ کے دیئے ہوئے معجزے لے کر پہنچے ان کی گنتی کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔،حضرت عبداللہ فرماتے ہیں نسب کے بیان کرنے والے غلط گو ہیں بہت سی امتیں ایسی بھی گزری ہیں جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ۔ عروہ بن زبیر کا بیان ہے کہ معد بن عدنان کے بعد کا نسب نامہ صحیح طور پر کوئی نہیں جانتا ۔ وہ اپنے ہاتھ ان کے منہ تک لوٹا لیے گئے کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ رسولوں کے منہ بند کرنے لگے ۔ ایک معنی یہ بھی ہیں کہ وہ اپنے ہاتھ اپنے منہ پر رکھنے لگے کہ محض جھوٹ ہے جو رسول کہتے ہیں۔ ایک معنی یہ بھی ہیں کہ جواب سے لاچار ہو کر انگلیاں منہ پر رکھ لیں ۔ ایک معنی یہ بھی ہیں کہ اپنے منہ سے انہیں جھٹلانے لگے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہاں پر فی معنی میں " بے" کے ہو جیسے بعض عرب کہتے ہیں ادخلک اللہ بالجنۃ یعنی فی الجنۃ شعر میں بھی یہ محاورہ مستعمل ہے ۔ اور بقول مجاہد اس کے بعد کا جملہ اسی کی تفسیر ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے مارے غصے کے اپنی انگلیاں اپنے منہ میں ڈال لیں ۔ چنانچہ اور آیت میں منافقین کے بارے میں ہے کہ آیت (واذا خلوا عضوا علیکم الانامل من الغیظ) یہ لوگ خلوت میں تمہاری جلن سے اپنی انگلیاں چباتے رہتے ہیں ۔ یہ بھی ہے کہ کلام اللہ سن کر تعجب سے اپنے ہاتھ اپنے منہ پر رکھ دیتے ہیں اور کہہ گزرتے ہیں کہ ہم تو تمہاری رسالت کے منکر ہیں ہم تمہیں سچا نہیں جانتے بلکہ سخت شبہ میں ہیں ۔