مَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ ۖ أَعْمَالُهُمْ كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ فِي يَوْمٍ عَاصِفٍ ۖ لَا يَقْدِرُونَ مِمَّا كَسَبُوا عَلَى شَيْءٍ ۚ ذَلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُ ﴿18﴾
‏ [جالندھری]‏ جن لوگوں نے اپنے پروردگار سے کفر کیا انکے اعمال کی مثال راکھ کی سی ہے کہ آندھی کے دن اس پر زور کی ہوا چلے (اور) اسے اڑا لے جائے (اسی طرح) جو کام وہ کرتے رہے ان پر ان کو کچھ دسترس نہ ہو گی یہی تو پرلے سرے کی گمراہی ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
بے سود اعمال
کافر جو اللہ کے ساتھ دوسروں کی عبادتوں کے خوگر تھے پیغمبروں کی نہیں مانتے تھے جن کے اعمال ایسے تھے جیسے بنیاد کے بغیر عمارت ہو جن کا نتیجہ یہ ہوا کہ سخت ضرورت کے وقت خالی ہاتھ کھڑے رہ گئے ۔ پس فرمان ہے کہ ان کافروں کی یعنی ان کے اعمال کی مثال ۔ قیامت کے دن جب کہ یہ پورے محتاج ہوں گے سمجھ رہے ہوں گے کہ اب ابھی ہماری بھلائیوں کا بدلہ ہمیں ملے گا لیکن کچھ نہ پائیں گے ، مایوس رہ جائیں گے ، حسرت سے منہ تکنے لگیں گے جیسے تیز آندھی والے دن ہوا راکھ کو اڑا کر ذرہ ذرہ ادھر ادھر بکھیر دے اسی طرح ان کے اعمال محض اکارت ہو گئے جیسے اس بکھری ہوئی اور اڑی ہوئی راکھ کا جمع کرنا محال ایسے ہی ان کے بےسود اعمال کا بدلہ محال ۔ وہ تو وہاں ہوں گے ہی نہیں ان کے آنے سے پہلے ہی ھبا منشورا ہو گئے ۔ آیت (مثل ما ینفقون فی ھذہ الحیوۃ الدنیا کمثل ریح) الخ یہ کفار جو کچھ اس حیات دنیا میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس آگ کے گولے جیسی ہے جو ظالموں کی کھیتی جھلسا دے ۔ اللہ ظالم نہیں لیکن وہ اپنے اوپر خود ظلم کرتے ہیں ۔ اور آیت میں ہے کہ ایمان والو اپنے صدقے خیرات احسان رکھ کر اور ایذاء دے کر برباد نہ کرو جیسے وہ جو ریا کاری کے لئے خرچ کرتا ہو اور اللہ پر اور قیامت پر ایمان نہ رکھتا ہو اس کی مثال اس چٹان کی طرح ہے جس پر مٹی تھی لیکن بارش کے پانی نے اسے دھو دیا اب وہ بالکل صاف ہو گیا یہ لوگ اپنی کمائی میں سے کسی چیز پر قادر نہیں اللہ تعالٰی کافروں کی رہبری نہیں فرماتا ۔ اس آیت میں ارشاد ہوا کہ یہ دور کی گمراہی ہے ان کی کوشش ان کے کام بےپایہ اور بےثبات ہیں سخت حاجت مندی کے وقت ثواب گم پائیں گے یہی انتہائی بد قسمتی ہے ۔