وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ۖ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ إِلَّا أَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي ۖ فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ ۖ مَا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنْتُمْ بِمُصْرِخِيَّ ۖ إِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِنْ قَبْلُ ۗ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿22﴾
‏ [جالندھری]‏ جب (حساب کتاب کا) کام فیصل ہو چکے گا تو شیطان کہے گا (جو) وعدہ خدا نے تم سے کیا تھا (وہ تو) سچا (تھا) اور (جو) وعدہ میں نے تم سے کیا تھا وہ جھوٹا تھا۔ اور میرا تم پر کسی طرح کا زور نہیں تھا۔ ہاں میں نے تم کو (گمراہی اور باطل کی طرف) بلایا تو تم نے (جلدی سے اور بےدلیل) میرا کہنا مان لیا۔ (آج) مجھے ملامت نہ کرو اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔ نہ میں تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں اور نہ تم میری فریاد رسی کر سکتے ہو۔ میں اس بات سے انکار کرتا ہوں کہ تم پہلے مجھے شریک بناتے تھے۔ بیشک جو ظالم ہیں ان کے لئے درد دینے والا عذاب ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
طوطا چشم دشمن شیطان 
اللہ تعالٰی جب بندوں کی قضا سے فارغ ہو گا ، مومن جنت میں کافر دوزخ میں پہنچ جائیں گے ، اس وقت ابلیس ملعون جہنم میں کھڑا ہو کر ان سے کہے گا کہ اللہ کے وعدے سچے اور بر حق تھے ، رسولوں کی تابعداری میں ہی نجات اور سلامتی تھی ، میرے وعدے تو دھوکے تھے میں تو تمہیں غلط راہ پر ڈالنے کے لئے سبز باغ دکھایا کرتا تھا ۔ میری باتیں بےدلیل تھیں میرا کلام بےحجت تھا۔ میرا کوئی زور غلبہ تم پر نہ تھا تم تو خواہ مخواہ میری ایک آواز پر دوڑ پڑے ۔ میں نے کہا تم نے مان لیا رسولوں کی سچے وعدے ان کی بادلیل آواز ان کی کامل حجت والی دلیلیں تم نے ترک کر دیں ۔ ان کی مخالفت اور میری موافقت کی ۔ جس کا نتیجہ آج اپنی آنکھوں سے تم نے دیکھ لیا یہ تمہارے اپنے کرتوتوں کا بدلہ ہے مجھے ملامت نہ کرنا بلکہ اپنے نفس کو ہی الزام دینا ، گناہ تمہارا اپنا ہے خود تم نے دلیلیں چھوڑیں تم نے میری بات مانی آج میں تمہارے کچھ کام نہ آؤں گا نہ تمہیں بچا سکوں نہ نفع پہنچا سکوں ۔ میں تو تمہارے شرک کے باعث تمہارا منکر ہوں میں صاف کہتا ہوں کہ میں شریک اللہ نہیں جیسے فرمان الہٰی ہے آیت (ومن اضل ممن یدعوا من دون اللہ من لا یستجیب لہ) الخ ، اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہے ؟ جو اللہ کے سوا اوروں کو پکارے جو قیامت تک اس کی پکار کو قبول نہ کر سکیں بلکہ اس کے پکارنے سے محض غافل ہوں اور محشر کے دن ان کے دشمن اور ان کی عبادت کے منکر بن جائیں ۔ اور آیت میں ہے آیت (کلا سیکفرون بعبادتہم) الخ، یقینا وہ لوگ ان کی عبادتوں سے منکر ہو جائیں گے اور ان کے دشمن بن جائیں گے یہ ظالم لوگ ہیں اس لئے کہ حق سے منہ پھیر لیا باطل کے پیرو کار بن گئے ایسے ظالموں کے لئے المناک عذاب ہیں ۔ پس ظاہر ہے کہ ابلیس کا یہ کلام دوزخیوں سے دوزخ میں داخل ہونے کے بعد ہوگا۔ تاکہ وہ حسرت و افسوس میں اور بڑھ جائیں ۔ لیکن ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب اگلوں پچھلوں کو اللہ تعالٰی جمع کرے گا اور ان میں فیصلے کر دے گا فیصلوں کے وقت عام گھبراہٹ ہو گی ۔ مومن کہیں گے ہم میں فیصلے ہو رہے ہیں ، اب ہماری سفارش کے لئے کون کھڑا ہو گا ؟ پس حضرت آدم حضرت نوح حضرت ابراہیم حضرت موسیٰ حضرت عیسیٰ علیہم السلام کے پاس جائیں گے ۔ حضرت عیسیٰ فرمائیں گے نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچو چنانچہ وہ میرے پاس آئیں گے ۔ مجھے کھڑا ہونے کی اللہ تبارک و تعالیٰ اجازت دے گا اسی وقت میری مجلس سے پاکیزہ تیز اور عمد خوشبو پھیلے گی کہ اس سے بہتر اور عمدہ خوشبو کھبی کسی نے نہ سونگھی ہو گی میں چل کر رب العالمین کے پاس آؤں گا میرے سر کے بالوں سے لے کر میرے پیر کے انگوٹھے تک نورانی ہو جائے گا ۔ اب میں سفارش کروں گا اور جناب حق تبارک و تعالیٰ قبول فرمائے گا یہ دیکھ کر کافر لوگ کہیں گے کہ چلو بھئی ہم بھی کسی کو سفارشی بنا کر لے چلیں اور اس کے لئے ہمارے پاس سوائے ابلیس کے اور کون ہے ؟ اسی نے ہم کو بہکایا تھا ۔ چلو اسی سے عرض کریں ۔ آئیں گے ابلیس سے کہیں گے کہ مومنوں نے تو شفیع پالیا اب تو ہماری طرف سے شفیع بن جا ۔ اس لئے کہ ہمیں گمراہ بھی تو نے ہی کیا ہے یہ سن کر یہ ملعون کھڑا ہو گا ۔ اس کی مجلس سے ایسی گندی بد بو پھیلے گی کہ اس سے پہلے کسی ناک میں ایسی بد بو نہ پہنچی ہو ۔ پھر وہ کہے گا جس کا بیان اس آیت میں ہے ۔ محمد بن کعب قرظی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب جہنمی اپنا صبر اور بےصبری یکساں بتلائیں گے اس وقت ابلیس ان سے یہ کہے کا اس وقت وہ اپنی جانوں سے بھی بےزار ہو جائیں گے ندا آئے گی کہ تمہاری اس وقت کی اس بےزاری سے بھی زیادہ بےزاری اللہ کی تم سے اس وقت تھی جب کہ تمہیں ایمان کی طرف بلایا جاتا تھا اور تم کفر کرتے تھے۔ عامر شعبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں تمام لوگوں کے سامنے اس دن دو شخص خطبہ دینے کیلئے کھڑے ہوں گے ۔ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام سے اللہ تعالٰی فرمائے گا کہ کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ تم اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لینا یہ آیتیں(ھذا یوم ینفع الصادقین) الخ تک اسی بیان میں ہیں اور ابلیس کھڑا ہو کر کہے گا آیت (ما کان لی علیکم من سلطان) الخ ۔ 
برے لوگوں کے انجام کا اور ان کے درد و غم اور ابلیس کے جواب کا ذکر فرما کر اب نیک لوگوں کا انجام بیان ہو رہا ہے کہ ایمان دار نیک اعمال لوگ جنتوں میں جائیں گے جہاں چاہیں جائیں آئیں چلیں پھریں کھائیں پیئیں ہمیشہ ہمیش کے لیے وہیں رہیں۔ یہاں نہ آزردہ ہوں نہ دل بھرے نہ طبیعت بھرے نہ مارے جائیں نہ نکالے جائیں نہ نعمتیں کم ہوں۔ وہاں ان کا تحفہ سلام ہی سلام ہو گا جیسے فرمان ہے آیت (حتی اذا جاوہا وفتحت ابوابہا) الخ ، یعنی جب جنتی جنت میں جائیں گے اور اس کے دروازے ان کے لئے کھولے جائیں گے اور وہاں کے داروغہ انہیں سلام علیک کہیں گے ، الخ ۔ اور آیت میں ہے ہر دروازے سے ان کے پاس فرشتے آئیں گے اور سلام علیکم کہیں گے اور آیت میں ہے کہ وہاں تحیۃ اور سلام ہی سنائے جائیں گے ۔ اور آیت میں ہے آیت (دعواھم فیہا سبحانک اللہم وتحیتہم فیہا سلام) ان کی پکار وہاں اللہ کی پاکیزگی کا بیان ہو گا اور ان کا تحفہ وہاں سلام ہوگا ۔ اور ان کی آخر آواز اللہ رب العالمین کی حمد ہو گی ۔