أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ ﴿28﴾ [جالندھری] کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے خدا کے احسان کو ناشکری سے بدل دیا۔ اور اپنی قوم کو تباہی کے گھر میں اتارا؟
تفسیر ابن كثیر
منافقین قریش
صحیح بخاری میں ہے الم تر معنی میں الم تعلم کے ہے یعنی کیا تو نہیں جانتا بوار کے معنی ہلاکت کے ہیں باریبوربورا سے بورا کے معنی ہلکین کے ہیں مراد ان لوگوں سے بقول ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کفار اہل مکہ ہیں اور قول ہے کہ مراد اس سے جبلہ بن ابہم اور اس کی اطاعت کرنے والے وہ عرب ہیں جو رومیوں سے مل گئے تھے لیکن مشہور اور صحیح قول ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کا اول ہی ہے ۔ گو الفاظ اپنے عموم کے اعتبار سے تمام کفار مشتمل ہوں ۔ اللہ تعالٰی نے اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام عالم کے لئے رحمت بنا کر اور کل لوگوں کے لئے نعمت بنا کر بھیجا ہے جس نے اس رحمت و نعمت کی قدر دانی کی وہ جنتی ہے اور جس نے ناقدری کی وہ جہنمی ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بھی ایک قول حضرت ابن عباس کے پہلے قول کی موافقت میں مروی ہے ابن کوا کے جواب میں آپ نے یہی فرمایا تھا کہ یہ بدر کے دن کے کفار قریش ہیں۔ اور روایت میں ہے کہ ایک شخص کے سوال پر آپ نے فرمایا مراد اس سے منافقین قریش ہیں ۔
اور روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ کیا مجھ سے قرآن کی بابت کوئی کچھ بات دریافت نہیں کرتا ؟ واللہ میرے علم میں اگر آج کوئی مجھ سے زیادہ قرآن کا عالم ہوتا تو چاہے وہ سمندروں پار ہوتا لیکن میں ضرور اس کے پاس پہنچتا ۔ یہ سن کر عبداللہ بن کوا کھڑا ہو گیا اور کہا یہ کون لوگ ہیں جن کے بارے میں فرمان الہٰی ہے کہ انہوں نے اللہ کی نعمت ایمان پہنچی لیکن اس نعمت کو کفر سے بدلا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گڑھے میں ڈال دیا آپ نے فرمایا یہ مشریکن قریش ہیں ان کے پاس اللہ کی نعمت ایمان پہنچی لیکن اس نعمت کو انہوں نے کفر سے بدل دیا ۔ اور روایت میں آپ سے مروی ہے کہ اس سے مراد قریش کے دو فاجر ہیں بنو امیہ اور بنو مغیرہ ۔ بنو مغیرہ نے اپنی قوم کو بدر میں لا کھڑا کیا اور انہیں ہلاکت میں ڈالا اور بنو امیہ نے احد والے دن اپنے والوں کو غارت کیا ۔ بدر میں ابوجہل تھا اور احد میں ابو سفیان اور ہلاکت کے گھر سے مراد جہنم ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ بنو مغیرہ تو بدر میں ہلاک ہوئے اور بنو امیہ کو کچھ دنوں کا فائدہ مل گیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بھی اس آیت کی تفسیر میں یہی مروی ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب آپ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا یہ دونوں قریش کے بدکار ہیں ۔
میرے ماموں اور تیرے چچا ، میری ممیاں والے تو بدر کے دن ناپید ہو گئے اور تیرے چچا والوں کو اللہ نے مہلت دے رکھی ہے ۔ یہ جہنم میں جائیں گے جو بری جگہ ہے ۔ انہوں نے خود شرک کیا دوسروں کو شرک کی طرف بلایا ۔ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم ان سے کہہ دو کہ دینا میں کچھ کھا پی لو پہن اوڑھ لو آخر ٹھکانا تو تمہارا جہنم ہے ۔ جیسے فرمان ہے ہم انہیں یونہی سا آرام دے دیں گے پھر سخت عذابوں کی طرف بےبس کر دیں گے دنیاوی نفع اگرچہ ہو گا لیکن لوٹیں گے تو ہماری ہی طرف اس وقت ہم انہیں ان کے کفر کی وجہ سے سخت عذاب کریں گے ۔