اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْأَنْهَارَ ﴿32﴾
‏ [جالندھری]‏ خدا ہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے مینہ برسایا۔ پھر اس سے تمہارے کھانے کے لئے پھل پیدا کئے۔ اور کشتیوں ( اور جہازوں) کو تمہارے زیر فرمان کیا تاکہ دریا (اور سمندر) میں اسکے حکم سے چلیں۔ اور نہروں کو بھی تمہارے زیرفرمان کیا۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
سب کچھ تمہارا مطیع ہے 
اللہ کی طرح طرح کی بیشمار نعمتوں کو دیکھو۔ آسمان کو اس نے ایک محفوظ چھت بنا رکھا ہے زمین کو بہترین فرش بنا رکھا ہے آسمان سے بارش برسا کر زمین سے مزے مزے کے پھل کھیتیاں باغات تیار کر دیتا ہے ۔ اسی کے حکم سے کشتیاں پانی کے اوپر تیرتی پھرتی ہیں کہ تمہیں ایک کنارے سے دوسرے کنارے اور ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچائیں تم وہاں کا مال یہاں ، یہاں کا وہاں لے جاؤ ، لے آؤ ، نفع حاصل کرو ، تجربہ بڑھاؤ ۔ نہریں بھی اسی نے تمہارے کام میں لگا رکھی ہیں ، تم ان کا پانی پیو ، پلاؤ، اس سے کھیتیاں کرو ، نہاؤ دھوؤ اور طرح طرح کے فائدے حاصل کرو ۔ ہمیشہ چلتے پھرتے اور کبھی نہ تھکتے سورج چاند بھی تمہارے فائدے کے کاموں میں مشغول ہیں مقرر چال پر مقرر جگہ پر گردش میں لگے ہوئے ہیں ۔ نہ ان میں تکرار ہو نہ آگا پیچھا ، دن رات انہی کے آنے جانے سے پے درپے آتے جاتے رہتے ہیں ستارے اسی کے حکم کے ماتحت ہیں اور رب العالمین بابرکت ہے ۔ کبھی دنوں کو بڑے کر دیتا ہے کبھی راتوں کو بڑھا دیتا ہے ، ہر چیز اپنے کام میں سر جھکائے مشغول ہے ، وہ اللہ عزیز و غفار ہے ۔ تمہاری ضرورت کی تمام چیزیں اس نے تمہارے لئے مہیا کر دی ہیں تم اپنے حال و قال سے جن جن چیزوں کے محتاج تھے ، اس نے سب کچھ تمہیں دے دی ہیں ، مانگنے پر بھی وہ دیتا ہے اور بےمانگے بھی اس کا ہاتھ نہیں رکھتا ۔ تم بھلا رب کی تمام نعمتوں کا شکریہ تو ادا کرو گے ؟ تم سے تو ان کی پوری گنتی بھی محال ہے ۔ طلق بن حبیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ کا حق اس سے بہت بھاری ہے کہ بندے اسے ادا کر سکیں اور اللہ کی نعمتیں اس سے بہت زیادہ ہیں کہ بندے ان کی گنتی کر سکیں لوگو صبح شام توبہ استغفار کرتے رہو ۔ صحیح بخاری میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ تیرے ہی لئے سب حمد و ثنا سزا وار ہے ، ہماری ثنائیں ناکافی ہیں ، پوری اور بےپرواہ کرنے والی نہیں اے اللہ تو معاف فرما ۔ بزار میں آپ کا فرمان ہے کہ قیامت کے دن انسان کے تین دیوان نکلیں گے ایک میں نیکیاں لکھی ہوئی ہوں گی اور دوسرے میں گناہ ہوں گے، تیسرے میں اللہ کی نعمتیں ہوں گی ۔ اللہ تعالٰی اپنی نعمتوں میں سے سب سے چھوٹی نعمت سے فرمائے گا کہ اٹھ اور اپنا معاوضہ اس کے نیک اعمال سے لے لے ، اس سے اس کے سارے ہی عمل ختم ہو جائیں گے پھر بھی وہ یکسو ہو کر کہے گی کہ باری تعالٰی میری پوری قیمت وصول نہیں ہوئی خیال کیجئے ابھی گناہوں کا دیوان یونہی الگ تھلگ رکھا ہوا ہے ۔ اگر بندے پر اللہ کا ارادہ رحم و کرم کا ہوا تو اب وہ اس کی نیکیاں بڑھا دے گا اور اس کے گناہوں سے تجاوز کر لے گا اور اس سے فرما دے گا کہ میں نے اپنی نعمتیں تجھے بغیر بدلے کے بخش دیں ۔ اس کی سند ضعیف ہے ۔ مروی ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے اللہ تعالٰی جل و علا سے دریافت کیا کہ میں تیرا شکر کیسے ادا کروں ؟ شکر کرنا خود بھی تو تیری ایک نعمت ہے جواب ملا کہ داؤد اب تو شکر ادا کر چکا جب کہ تو نے یہ جان لیا اور اس کا اقرار کر لیا کہ تو میری نعمتوں میں سے ایک نعمت کا شرک بھی بغیر ایک نئی نعمت کے ہم ادا نہیں کر سکتے کہ اس نئی نعمت پر پھر ایک شکر واجب ہو جاتا ہے پھر اس نعمت کی شکر گزاری کی ادائیگی کی توفیق پر پھر نعمت ملی ، جس کا شکریہ واجب ہوا ۔ ایک شاعر نے یہی مضمون اپنے شعروں میں باندھا ہے کہ رونگٹے رونگٹے پر زبان ہو تو بھی تیری ایک نعمت کا شکر بھی پورا ادا نہیں ہو سکتا تیرے احسانات اور انعامات بیشمار ہیں ۔