وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ ﴿35﴾
‏ [جالندھری]‏ اور جب ابراہیم نے دعا کی کہ میرے پروردگار اس شہر کو (لوگوں کے لئے) امن کی جگہ بنا دے اور مجھے اور میری اولاد کو اس بات سے کہ بتوں کی پرستش کرنے لگیں بچائے رکھ۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
حرمت وعظمت کا مالک شہر
اللہ تعالٰی بیان فرماتا ہے کہ حرمت والا شہر مکہ ابتداء میں اللہ کی توحید پر ہی بنایا گیا تھا ۔ اس کے اول بانی خلیل اللہ علیہ السلام اللہ کے سوا اوروں کی عبادت کرنے والوں سے بری تھے ۔ انہی نے اس شہر کے باامن ہونے کی دعا کی تھی ۔ جو اللہ تعالٰی نے قبول فرمائی ۔ سب سے پہلا با برکت اور باہدایت اللہ کا گھر مکے شریف کا ہی ہے ، جس میں بہت سی واضح نشانیوں کے علاوہ مقام ابراہیم بھی ہے ۔ اس شہر میں جو پہنچ گیا ، امن و امان میں آ گیا ۔ اس شہر کو بنانے کے بعد خلیل اللہ نے دعا کی کہ اے اللہ اس شہر کو پر امن بنا ۔ اسی لئے فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل و اسحاق جیسے بچے عطا فرمائے ۔ حضرت اسماعیل کو دودھ پیتا اس کی والدہ کے ساتھ لے کر یہاں آئے تھے تب بھی آپ نے اس شہر کے باامن ہونے کی دعا کی تھی لیکن اس وقت کے الفاظ یہ تھے آیت (رب اجعل ھذا بلدا امنا) پس اس دعا میں بلد پر لام نہیں ہے ، اس لئے کہ یہ دعا شہر کی آبادی سے پہلے کی ہے اور اب چونکہ شہر بس چکا تھا ۔ بلد کو معرف بلام لائے ۔ سورہ بقرہ میں ہم ان چیزوں کو وضاحت و تفصیل کے ساتھ ذکر کر آئے ہیں ۔ پھر دوسری دعا میں اپنی اولاد کو بھی شریک کیا ۔ انسان کو لازم ہے کہ اپنی دعاؤں میں اپنے ماں باپ کو اور اولاد کو بھی شامل رکھے ۔ پھر آپ نے بتوں کی گمراہی ان کا فتنہ اکثر لوگوں کا بہکا جانا بیان فرما کر ان سے اپنی بےزاری کا اظہار کیا اور انہیں اللہ کے حوالے کیا کہ وہ چاہے بخشے ، چاہے سزا دے ۔ جیسے روح اللہ علیہ السلام بروز قیامت کہیں گے کیا اگر تو انہیں عذاب کر تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر بخش دے تو تو عزیز و حکیم ہے ۔ یہ یاد رہے کہ اس میں صرف اللہ کی مشیت اور اس کے ارادے کی طرف لوٹنا ہے نہ کہ اس کے واقع ہونے کو جائز سمجھنا ہے ۔ حضور علیہ السلام نے حضرت خلیل اللہ کا یہ قول اور حضرت روح اللہ کا قول آیت (ان تعذبہم) الخ ، تلاوت کر کے رو رو کر اپنی امت کو یاد کیا تو اللہ تعالٰی نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ جا کر دریافت کرو کہ کیوں رو رہے ہو ؟ آپ نے سبب بیان کیا حکم ہوا کہ جاؤ اور کہہ دو کہ آپ کو ہم آپ کی امت کے بارے میں خوش کر دیں گے ناراض نہ کریں گے ۔