وَجَاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ ﴿67﴾
‏ [جالندھری]‏ اور اہل شہر (لوط کے پاس) خوش خوش (دوڑے) آئے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
قوم لوط کی خر مستیاں 
قوم لوط کو جب معلوم ہوا کہ حضرت لوط علیہ السلام کے گھر نوجوان خوبصورت مہمان آئے ہیں تو وہ اپنے بد ارادے سے خوشیاں مناتے ہوئے چڑھ دوڑے ۔ حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں سمجھانا شروع کیا کہ اللہ سے ڈرو ، میرے مہمانوں میں مجھے رسوا نہ کرو ۔ اس وقت خود حضرت لوط علیہ السلام کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ فرشتے ہیں ۔ جیسے کہ سورہ ہود میں ہے۔ یہاں گو اس کا ذکر بعد میں ہے اور فرشتوں کا ظاہر ہوجا نا پہلے ذکر ہوا ہے لیکن اس سے ترتیب مقصود نہیں ۔ واؤ ترتیب کے لئے ہوتا بھی نہیں اور خصو صاً ایسی جگہ جہاں اس کے خلاف دلیل موجود ہو ۔ آپ ان سے کہتے ہیں کہ میری آبرو ریزی کے درپے ہو جاؤ ۔ لیکن وہ جواب دیتے ہیں کہ جب آپ کو یہ خیال تھا تو انہیں آپ نے اپنا مہمان کیوں بنایا ؟ ہم تو آپ کو اس سے منع کر چکے ہیں ۔ تب آپ نے انہیں مزید سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ تمہاری عورتیں جو میری لڑکیاں ہیں ، وہ خواہش پوری کرنے کی چیزیں ہیں نہ کہ یہ ۔ اس کا پورا بیان نہایت وضاحت کے ساتھ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں اس لئے دہرانے کی ضرورت نہیں ۔ چونکہ یہ بد لوگ اپنی خرمستی میں تھے اور جو قضا اور عذاب ان کے سروں پر جھوم رہا تھا اس سے غافل تھے اس لیے اللہ تعالٰی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کھا کر ان کی یہ حالت بیان فرما رہا ہے اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت تکریم اور تعظیم ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی جتنی مخلوق پیدا کی ہے ان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ بزرگ کوئی نہیں ۔ اللہ نے آپ کی حیات کے سوا کسی کی حیات کی قسم نہیں کھائی ۔ سکرۃ سے مراد ضلالت و گمراہی ہے ، اسی میں وہ کھیل رہے تھے اور تردد میں تھے ۔