أَتَى أَمْرُ اللَّهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿1﴾
‏ [جالندھری]‏ خدا کا حکم (یعنی عذاب گویا) آ ہی پہنچا تو (کافرو) اس لے لئے جلدی مت کرو۔ یہ لوگ جو (خدا کا) شریک بناتے ہیں وہ اس سے پاک اور بالاتر ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
عذاب کا شوق جلد پورا ہو گا
اللہ تعالٰی قیامت کی نزد یکی کی خبر دے رہا ہے اور گو یا کہ وہ قائم ہو چکی ۔ اس لئے ماضی کے لفظ سے بیان فرماتا ہے جیسے فرمان ہے لوگوں کا حساب قریب آچکا پھر بھی وہ غفلت کے ساتھ منہ موڑے ہوئے ہیں ۔ اور آیت میں ہے قیامت آچکی ۔ چاند پھٹ گیا ۔ پھر فرمایا اس قریب والی چیز کے اور قریب ہونے کی تمنائیں نہ کرو ۔ ہ کی ضمیر کا مر جع یا تو لفظ اللہ ہے یعنی اللہ سے جلدی نہ چاہو یا عذاب ہیں یعنی عذابوں کی جلدی نہ مچاؤ۔ دونوں معنی ایک دوسرے کے لازم ملز وم ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے یہ لوگ عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں مگر ہماری طرف سے اس کا وقت مقرر نہ ہوتا تو بیشک ان پر عذاب آجاتے لیکن عذاب ان پر آئے گا ضرور اور وہ بھی نا گہاں ان کی غفلت میں ۔ یہ عذابو کی جلدی کرتے ہیں اور جہنم ان سب کافروں کو گھیر ہوئے ہے ۔ ضحاک رحمتہ اللہ علیہ نے اس آیت کا ایک عجیب مطلب بیان کیا ہے یعنی وہ کہتے ہیں کہ مراد ہے کہ اللہ فرائض اور حدود نازل ہو چکے ۔ امام ابن جریر نے اسے خوب رد کیا ہے اور فرمایا ہے ایک شخص بھی تو ہمارے علم میں ایسا نہیں جس نے شریعت کے وجود سے پہلے اسے مانگنے میں عجلت کی ہو ۔ مراد اس سے عذابوں کی جلدی ہے جو کافروں کی عادت تھی کیو نکہ وہ انہیں مانتے ہی نہ تھے ۔ جیسے قرآن پاک نے فرمایا ہے آیت (یستعجل بھا الذین لا یومنون بھا الخ بے ایمان تو اس کی جلدی مچا رہے ہیں اور ایما ندار ان سے لر زاں و ترساں ہیں کیو نکہ وہ انہیں برحق مانتے ہیں ۔ بات یہ ہے کہ عذاب الہٰی میں شک کرنے والے دور کی گمراہی میں جا پڑتے ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہے فرماتے ہیں قیامت کے قریب مغرب کی جانب سے ڈھال کی طرح کا سیاہ ابر نمودار ہو گا اور وہ بہت جلد آسمان پر چڑھے گا پھر اس میں سے ایک منا دی کرے گا لوگ تعجب سے ایک دو سرے سے کہیں گے میاں کچھ سنا بھی ؟ بعض ہاں کہیں گے اور بعض بات کو اڑا دیں گے وہ پھر دوبارہ ندا کرے گا اور کہے گا اے لوگو ! اب تو سب کہیں گے کہ ہاں صاحب آواز تو آئی ۔ پھر وہ تیسری دفعہ منادی کرے گا اور کہے گا اے لوگو امر الہٰی آ پہنچا اب جلدی نہ کرو۔ اللہ کی قسم دو شخص جو کسی کپڑے کو پھیلائے ہوئے ہوں گے سمیٹنے بھی نہ پائیں گے جو قیامت قائم ہو جائے گی کوئی اپنے حوض کو ٹھیک کر رہا ہو گا ابھی پانی بھی پلا نہ پایا ہو گا جو قیامت آئے گی دودھ دوہنے والے پی بھی نہ سکیں گے کہ قیامت آ جائے گی ہر ایک نفسا نفسی میں لگ جائے گا ۔ پھر اللہ تعالٰی اپنے نفس کریم سے شرک اور عبادت غیر پاکیزگی بیان فرماتا ہے فی الواقع وہ ان تمام باتوں سے پاک بہت دور اور بہت بلند ہے یہی مشرک ہیں جو منکر قیامت بھی ہیں اللہ سجانہ و تعالٰی ان کے شرک سے پاک ہے ۔