الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ ۖ فَأَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوءٍ ۚ بَلَى إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿28﴾
‏ [جالندھری]‏ (ان کا حال یہ ہے کہ) جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرنے لگتے ہیں (وہ یہ) اپنے ہی حق میں ظلم کرنے والے (ہوتے ہیں) تو مطیع ومنقاد ہوجاتے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ ہم کوئی برا کام نہیں کرتے تھے۔ ہاں جو کچھ تم کیا کرتے تھے خدا اسے خوب جانتا ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
مشرکین کی جان کنی کا عالم 
مشرکین کی جان کنی کے وقت کا حال بیان ہو رہا ہے کہ جب فرشتے ان کی جان لینے کے لئے آتے ہیں ، تو یہ اس وقت سننے عمل کرنے اور مان لینے کا اقرار کرتے ہیں ۔ ساتھ ہی اپنے کرتوت چھپاتے ہوئے اپنی بےگناہی بیان کرتے ہیں ۔ قیامت کے دن اللہ کے سامنے بھی قسمیں کھا کر اپنا مشرک نہ ہونا بیان کریں گے ۔ جس طرح دنیا میں اپنی بےگناہی پر لوگوں کے سامنے جھوٹی قسمیں کھاتے تھے ۔ انہیں جواب ملے گا کہ جھوٹے ہو ، بد اعمالیاں جی کھول کر کہ چکے ہو ، اللہ غافل نہیں جو باتوں میں آ جائے ہر ایک عمل اس پر روشن ہے ۔ اب اپنے کرتوتوں کا خمیا زہ بھگتو اور جہنم کے دروازوں سے جا کر ہمیشہ اسی بری جگہ میں پڑے رہو ۔ مقام برا ، مکان برا ، ذلت اور سوائی والا ، اللہ کی آیتوں سے تکبر کرنے کا اور اس کے رسولوں کی اتباع سے جی چرانے کا یہی بدلہ ہے ۔ مرتے ہی ان کی روحیں جہنم رسید ہو جائیں اور جسموں پر قبروں میں جہنم کی گرمی اور اس کی لپک آنے لگی ۔ قیامت کے دن روحیں جسموں سے مل کر نار جہنم میں گئیں اب نہ موت نہ تخفیف ۔ جیسے فرمان باری ہے آیت (النار یعرضون علیھا غدوا وعشیا) الخ یہ دوزخ کی آگ کے سامنے ہر صبح شام لائے جاتے ہیں ۔ قیامت کے قائم ہوتے ہی اے آل فرعون تم سخت تر عذاب میں چلے جاؤ ۔