وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ۖ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴿41﴾ [جالندھری] اور جن لوگوں نے ظلم سہنے کے بعد خدا کے لئے وطن چھوڑا ہم ان کو دنیا میں اچھا ٹھکانہ دیں گے۔ اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے۔ کاش وہ (اسے) جانتے ۔
تفسیر ابن كثیر
دین کی پاسبانی میں ہجرت
جو لوگ اللہ کی راہ میں ترک وطن کر کے ، دوست ، احباب ، رشتے دار ، کنبے تجارت کو اللہ کے نام پر ترک کر کے دین ربانی کی پاسبانی میں ہجرت کر جاتے ہیں ان کے اجر بیان ہو رہے ہیں کہ دونوں جہان میں یہ اللہ کے ہاں معزز و محترم ہیں ۔ بہت ممکن ہے کہ سبب نزول اس کا مہاجرین حبش ہوں جو مکے میں مشرکین کی سخت ایذائیں سہنے کے بعد ہجرت کر کے حبش چلے گئے کہ آزادی سے دین حق پر عامل رہیں ۔ ان کے بہترین لوگ یہ تھے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہ آپ کے ساتھ آپ کی بیوی صاحبہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں اور حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے اور حضرت ابوسلمہ بن عبد الاسد رضی اللہ تعالٰی عنہ وغیرہ ۔ قریب قریب اسی آدمی تھے مرد بھی عورتیں بھی جو سب صدیق اور صدیقہ تھے اللہ ان سب سے خوش ہو اور انہیں بھی خوش رکھے ۔ پس اللہ تعالٰی ایسے سچے لوگوں سے وعدہ فرماتا ہے کہ انہیں وہ اچھی جگہ عنایت فرمائے گا ۔ جیسے مدینہ اور پاک روزی ، مال کا بھی بدلہ ملا اور وطن کا بھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اللہ کے خوف سے جیسی چیز کو چھوڑے اللہ تعالٰی اسی جیسی بلکہ اس سے کہیں بہتر ، پاک اور حلال چیز اسے عطا فرماتا ہے ۔ ان غریب الوطن مہاجرین کو دیکھئے کہ اللہ تعالٰی نے انہیں حاکم و بادشاہ کر دیا اور دنیا پر ان کو سلطنت عطا کی ۔ ابھی آخرت کا اجر و ثواب باقی ہے۔ پس ہجرت سے جان چرانے والے مہاجرین کے ثواب سے واقف ہوتے تو ہجرت میں سبقت کرتے ۔ اللہ تعالٰی حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے خوش ہو کہ آپ جب کبھی کسی مہاجر کو اس کا حصہ غنیمت و غیرہ دیتے تو فرماتے لو اللہ تمہیں برکت دے یہ تو دنیا کا اللہ کا وعدہ ہے اور ابھی اجر آخرت جو بہت عظیم الشان ہے، باقی ہے۔ پھر اسی آیت مبارک کی تلاوت کرتے ۔ ان پاکباز لوگوں کا اور وصف بیان فرماتا ہے کہ جو تکلیفیں اللہ کی راہ میں انہیں پہنچتی ہیں یہ انہیں جھیل لیتے ہیں اور اللہ تعالٰی پر جو انہیں توکل ہے، اس میں کبھی فرق نہیں آتا ، اسی لئے دونوں جہان کی بھلائیاں یہ لوگ اپنے دونوں ہاتھوں سے سمیٹ لیتے ہیں ۔