وَيَجْعَلُونَ لِمَا لَا يَعْلَمُونَ نَصِيبًا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ ۗ تَاللَّهِ لَتُسْأَلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَفْتَرُونَ ﴿56﴾
‏ [جالندھری]‏ اور ہمارے دیئے ہوئے مال میں سے ایسی چیزوں کا حصہ مقرر کرتے ہیں جن کو جانتے ہی نہیں۔ (کفرو!) خدا کی قسم کہ جو تم افترا کرتے ہو اس کی تم سے ضرور پرسش ہو گی۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
باز پرس لازمی ہو گی 
مشرکوں کی بےعقلی اور بےڈھنگی بیان ہو رہی ہے کہ دینے والا اللہ ہے سب کچھ اسی کا دیا ہوا اور یہ اس میں سے اپنے جھوٹے معبودوں کے نام ہو جائے جن کا صحیح علم بھی انہیں نہیں پھر اس میں سختی ایسی کریں کہ اللہ کے نام کا تو چاہے ان کے معبودوں کے ہو جائے لیکن ان کے معبودوں کے نام کیا گیا اللہ کے نام نہ ہو سکے ایسے لوگوں سے ضرور باز پرس ہو گی اور اس افترا کا بدلہ انہیں پورا پورا ملے گا ۔ جہنم کی آگ ہو گی اور یہ ہوں گے ۔ پھر ان کی دوسری بے انصافی اور حماقت بیان ہو رہی ہے کہ اللہ کے مقرب غلام فرشتے ان کے نزدیک اللہ کی بیٹیاں ہیں یہ خطا کر کے پھر ان کی عبادت کرتے ہیں جو خطا پر خطا ہے ۔ یہاں تین جرم ان سے سرزد ہوئے اول تو اللہ کے لئے اولاد ٹھہرانا جو اس سے یکسر پاک ہے، پھر اولاد میں سے بھی وہ قسم اسے دینا جسے خود اپنے لئے بھی پسند نہیں کرتے یعنی لڑکیاں ۔ کیا ہی الٹی بات ہے کہ اپنے لئے اولاد ہو ؟ پھر اولاد بھی وہ جو ان کے نزدیک نہایت ردی اور ذلیل چیز ہے ۔ کیا حماقت ہے کہ انہیں تو اللہ لڑکے دے اور اپنے لئے لڑکیاں رکھے ؟ اللہ اس سے بلکہ اولاد سے پاک ہے ۔ انہیں جب خبر ملے کہ ان کے ہاں لڑکی ہوئی تو مارے ندامت و شرم کے منہ کالا پڑ جائے ، زبان بند ہو جائے، غم سے کمر جھک جائے۔ زہر کے گھو نٹ پی کر خاموش ہو جائے ۔ لوگوں سے منہ چھپاتا پھرے ۔ اسی سوچ میں رہے کہ اب کیا کروں اگر لڑکی کو زندہ چھوڑتا ہوں تو بڑی رسوائی ہے نہ وہ وارث بنے نہ کوئی چیز سمجھی جائے لڑکے کو اس پر ترجیح دی جائے غرض زندہ رکھے تو نہایت ذلت سے ۔ ورنہ صاف بات ہے کہ جیتے جی گڑھا کھودا اور دبا دی ۔ یہ حالت تو اپنی ہے پھر اللہ کے لئے یہی چیز ثابت کرتے ہیں ۔ کیسے برے فیصلے کرتے ہیں ؟ کتنی بےحیائی کی تقسیم کرتے ہیں اللہ کے لئے جو بیٹی ثابت کریں اسے اپنے لئے سخت تر باعث توہین و تذلیل سمجھیں ۔ اصل یہ ہے کہ بری مثال اور نقصان انہی کافروں کے لئے ہے اللہ کے لئے کمال ہے ۔ وہ عزیز و حکیم ہے اور ذوالجلال والاکرام ہے ۔