وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا أَبْكَمُ لَا يَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ وَهُوَ كَلٌّ عَلَى مَوْلَاهُ أَيْنَمَا يُوَجِّهْهُ لَا يَأْتِ بِخَيْرٍ ۖ هَلْ يَسْتَوِي هُوَ وَمَنْ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ ۙ وَهُوَ عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ ﴿76﴾
‏ [جالندھری]‏ اور خدا یک اور مثال بیان فرماتا ہے کہ دو آدمی ہیں ایک ان میں سے گونگا (اور دوسرے کی ملک) ہے (بے اختیار و ناتواں) کہ کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا اور اپنے مالک کو دوبھر ہو رہا ہے وہ جہاں اسے بھیجتا ہے (خیر سے کبھی) بھلائی نہیں لاتا۔ کیا ایسا (گونگا بہرا) اور وہ شخص جو (سنتا بولتا اور) لوگوں کو انصاف کرنے کا حکم دیتا ہے اور خود سیدھے راستے پر چل رہا ہے دونوں برابر ہیں؟ ‏
تفسیر ابن كثیر
گونگے بت مشرکین کے معبود
ہو سکتا ہے کہ یہ مثال بھی اس فرق کے دکھانے کی ہو جو اللہ تعالٰی میں اور مشرکین کے بتوں میں ہے ۔ یہ بت گونگے ہیں نہ کلام کر سکیں نہ کوئی بھلی بات کہہ سکیں ، نہ کسی چیز پر قدرت رکھیں ۔ قول و فعل دونوں سے خالی ۔ پھر محض بوجھ ، اپنے مالک پر بار ، کہیں بھی جائے کوئی بھلائی نہ لائے ۔ پس ایک برابر ہو جائیں گے ؟ ایک قول ہے کہ ایک گونگا حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کا غلام تھا ۔ اور ہو سکتا ہے کہ یہ مثال بھی کافر و مومن کی ہو جیسے اس سے پہلے کی آیت میں تھی ۔ کہتے ہیں کہ قریش کے ایک شخص کے غلام کا ذکر پہلے ہے اور دوسرے شخص سے مراد حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اور غلام گونگے سے مراد حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کا وہ غلام ہے جس پر آپ خرچ کرتے تھے جو آپ کو تکلیف پہنچاتا رہتا تھا اور آپ نے اسے کام کاج سے آزاد کر رکھا تھا لیکن پھر بھی یہ اسلام سے چڑتا تھا ، منکر تھا اور آپ کو صدقہ کرنے اور نیکیاں کرنے سے روکتا تھا ، ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے ۔