مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿97﴾
‏ [جالندھری]‏ جو شخص نیک عمل کرے گا مرد ہو یا عورت اور وہ مومن بھی ہوگا تو ہم اس کو (دنیا میں) پاک (اور آرام کی) زندگی سے زندہ رکھیں گے اور (آخرت میں) ان کے اعمال کا نہایت اچھا صلہ دیں گے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
کتاب و سنت کے فرماں بردار
اللہ تبارک و تعالٰی جل شانہ اپنے ان بندوں سے جو اپنے دل میں اللہ پر اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کامل رکھیں اور کتاب و سنت کی تابعداری کے ماتحت نیک اعمال کریں، وعدہ کرتا ہے کہ وہ انہیں دنیا میں بھی بہترین اور پاکیزہ زندگی عطا فرمائے گا۔ عمدگی سے ان کی عمر بسر ہو گی، خواہ وہ مرد ہوں، خواہ عورتیں ہوں، ساتھ ہی انہیں اپنے پاس دار آخرت میں بھی ان کی نیک اعمالیوں کا بہترین بدلہ عطا فرمائے گا۔ دنیا میں پاک اور حلال روزی، قناعت، خوش نفسی، سعادت ، پاکیزگی ، عبادت کا لطف، اطاعت کا مزہ، دل کی ٹھنڈک ، سینے کی کشادگی، سب ہی کچھ اللہ کی طرف سے ایماندار نیک عامل کو عطا ہوتی ہے۔ چنانچہ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اس نے فلاح حاصل کر لی جو مسلمان ہو گیا اور برابر سرابر روزی دیا گیا اور جو ملا اس پر قناعت نصیب ہوئی اور حدیث میں ہے جسے اسلام کی راہ دکھا دی گئی اور جسے پیٹ پالنے کا ٹکڑا میسر ہو گیا اور اللہ نے اس کے دل کو قناعت سے بھر دیا، اس نے نجات پا لی (ترمذی) صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالٰی اپنے مومن بندوں پر ظلم نہیں کرتا بلکہ ان کی نیکی کا بدلہ دنیا میں عطا فرماتا ہے اور آخرت کی نیکیاں بھی انہیں دیتا ہے، ہاں کافر اپنی نیکیاں دنیا میں ہی کھا لیتا ہے آخرت کے لئے اس کے ہاتھ میں کوئی نیکی باقی نہیں رہتی۔