فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ﴿98﴾
‏ [جالندھری]‏ اور جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے پناہ مانگ لیا کرو ‏
تفسیر ابن كثیر
آعوذ کا مقصد
اللہ تعالٰی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اپنے مومن بندوں کو حکم فرماتا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت سے پہلے وہ اعوذ پڑھ لیا کریں۔ یہ حکم فرضیت کے طور پر نہیں۔ ابن جریر وغیرہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ آعوذ کی پوری بحث مع معنی وغیرہ کے ہم اپنی اس تفسیر کے شروع میں لکھ آئے ہیں فالحمد اللہ۔ اس حکم کی مصلحت یہ ہے کہ قاری قرآن میں الھنے، غور و فکر سے رک جانے اور شیطانی وسوسوں میں آنے سے بچ جائے۔ اسی لئے جمہور کہتے ہیں کہ قرأت شروع کرنے سے پہلے آعوذ پڑھ لیا کر۔ کسی کا قول یہ بھی ہے کہ ختم قرأت کے بعد پڑھے۔ ان کی دلیل یہی آیت ہے لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے اور احادیث کی دلالت بھی اس پر ہے واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے کہ ایماندار متوکلین کو وہ ایسے گناہوں میں پھانس نہیں سکتا، جن سے وہ توبہ ہی نہ کریں۔ اس کی کوئی حجت ان کے سامنے چل نہیں سکتی، یہ مخلص بندے اس کے گہرے مکر سے محفوظ رہتے ہیں۔ ہاں جو اس کی اطاعت کریں، اس کے کہے میں آ جائیں، اسے اپنا دوست اور حمایتی ٹھہرا لیں۔ اسے اللہ کی عبادتوں میں شریک کرنے لگیں۔ ان پر تو یہ چھا جاتا ہے۔ یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ "ب" کو سبیبہ بتلائیں یعنی وہ اس کی فرمانبرداری کے باعث اللہ کے ساتھ شرکت کرنے لگ جائیں، یہ معنی بھی ہیں کہ وہ اسے اپنے مال میں، اپنی اولاد میں شریک الہ ٹھیرا لیں۔