وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَكَانَ آيَةٍ ۙ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُوا إِنَّمَا أَنْتَ مُفْتَرٍ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿101﴾
‏ [جالندھری]‏ اور جب ہم کوئی آیت کی جگہ بدل دیتے ہیں اور خدا جو کچھ نازل فرماتا ہے اسے خوب جانتا ہے تو (کافر) کہتے ہیں کہ تم تو (یونہی) اپنی طرف سے بنا لاتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں کثر نادان ہیں۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
ازلی بد نصیب لوگ
مشرکوں کی عقلی، بےثباتی اور بےیقینی کا بیان ہو رہا ہے کہ انہیں ایمان کیسے نصیب ہو؟ یہ تو ازلی بد نصیب ہیں، ناسخ منسوخ سے احکام کی تبدیلی دیکھ کر بکنے لگتے ہیں کہ لو صاحب ان کا بہتان کھل گیا، اتنا نہیں جانتے کہ قادر مطلق اللہ جو چاہے کرے جو ارادہ کرے، حکم دے، ایک حکم کو اٹھا دے دوسرے کو اس کی جگہ رکھ دے۔ جیسے آیت (ما ننسخ) الخ میں فرمایا ہے۔ پاک روح یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام اسے اللہ کی طرف سے حقانیت و صداقت کے عدل و انصاف کے ساتھ لے کر تیری جانب آتے ہیں تاکہ ایماندار ثابت قدم ہو جائیں، اب اترا، مانا، پھر اترا، پھر مانا، ان کے دل رب کی طرف جھکتے رہیں، تازہ تازہ کلام الٰہی سنتے رہیں، مسلمانوں کے لئے ہدایت و بشارت ہو جائے، اللہ اور رسول اللہ کے ماننے والے راہ یافتہ ہو کر خوش ہو جائیں۔