مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿106﴾
‏ [جالندھری]‏ جو شخص ایمان لانے کے بعد خدا کے ساتھ کفر کرے وہ نہیں جو (کفر پر زبردستی) مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان کیساتھ مطمئن ہو۔ بلکہ وہ جو (دل سے اور) دل کھول کر کفر کرے تو ایسوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کو بڑا سخت عذاب ہو گا۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
ایمان کے بعد کفر پسند لوگ 
اللہ سبحانہ و تعالٰی بیان فرماتا ہے کہ جو لوگ ایمان کے بعد کفر کریں دیکھ کر اندھے ہو جائیں پھر کفر یہ ان کا سینہ کھل جائے، اس پر اطمینان کر لیں۔ یہ اللہ کی غضب میں گرفتار ہوتے ہیں کہ ایمان کا علم حاصل کر کے پھر اس سے پھر گئے اور انہیں آخرت میں بڑا سخت عذاب ہو گا۔ کیونکہ انہوں نے آخرت بگاڑ کر دنیا کی محبت کی اور صرف دنیا طلبی کی وجہ سے اسلام پر مرتد ہونے کو ترجیح دی چونکہ ان کے دل ہدایت حق سے خالی تھے، اللہ کی طرف سے ثابت قدمی انہیں نہ ملی۔ دلوں پر مہریں لگ گئیں، نفع کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ کان اور آنکھیں بھی بےکار ہو گئیں نہ حق سن سکیں نہ دیکھ سکیں۔ پس کسی چیز نے انہیں کوئی فائدہ نہ پہنچایا اور اپنے انجام سے غافل ہو گئے۔ یقینا ایسے لوگ قیامت کے دن اپنا اور اپنے ہم خیال لوگوں کا نقصان کرنے والے ہیں۔ پہلی آیت کے درمیان جن لوگوں کا استثناء کیا ہے یعنی وہ جن پر جبر کیا جائے اور ان کے دل ایمان پر جمعے ہوئے ہوں، اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو بہ سبب مار پیٹ اور ایذاؤں کے مجبور ہو کر زبان سے مشرکوں کی موافقت کریں لیکن ان کا دل وہ نہ کہتا ہو بلکہ دل میں اللہ پر اور اس کے رسول پر کامل اطمینان کے ساتھ پورا ایمان ہو۔ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں یہ آیت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بارے میں اتری ہے جب کہ آپ کو مشرکین نے عذاب کرنا شروع کیا جب تک کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کفر نہ کریں۔ پس بادل ناخواستہ مجبوراً اور کرھاً آپ نے ان کی موافقت کی، پھر اللہ کے نبی کے پاس آ کر عذر بیان کرنے لگے۔ پس اللہ تعالٰی نے یہ آیت اتاری۔ شعبی، قتاوہ اور ابومالک بھی یہی کہتے ہیں۔ ابن جریر میں ہے کہ مشرکوں نے آپ کو پکڑا اور عذاب دینے شروع کئے، یہاں تک کہ آپ ان کے ارادوں کے قریب ہو گئے۔ پھر حضور علیہ السلام کے پاس آ کر اس کی شکایت کرنے لگے تو آپ نے پوچھا تم اپنے دل کا حال کیسا پاتے ہو؟ جواب دیا کہ وہ تو ایمان پر مطمئن ہے، جما ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا اگر وہ پھر لوٹیں تو تم بھی لوٹنا۔ بیہقی میں اسے بھی زیادہ تفصیل سے ہے اس میں ہے کہ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہا اور ان کے معبودوں کا ذکر خیر سے کیا پھر آپ کے پاس آ کر اپنا یہ دکھ بیان کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہوں نے اذیت دینا ختم نہیں کیا جب تک کہ میں نے آپ کو برا بھلا نہ کہہ لیا اور ان کے معبودوں کا ذکر خیر سے نہ کیا۔ آپ نے فرمایا تم اپنا دل کیسا پاتے ہو؟ جواب دیا کہ ایمان پر مطمئن۔ فرمایا اگر وہ پھر کریں تو تم بھی پھر کر لینا۔ اسی پر یہ آیت اتری۔ پس علماء کرام کا اتفاق ہے کہ جس پر جبر و کراہ کیا جائے، اسے جائز ہے کہ اپنی جان بچانے کے لئے ان کی موافقت کر لے اور یہ بھی جائز ہے کہ ایسے موقعہ پر بھی ان کی نہ مانے جیسے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کر کے دکھایا کہ مشرکوں کی ایک نہ مانی حالانکہ وہ انہیں بدترین تکلیفیں دیتے تھے یہاں تک کہ سخت گرمیوں میں پوری تیز دھوپ میں آپ کو لٹا کر آپ کے سینے پر بھاری وزنی پتھر رکھ دیا کہ اب بھی شرک کرو تو نجات پاؤ لیکن آپ نے پھر بھی ان کی نہ مانی صاف انکار کر دیا اور اللہ کی توحید احد احد کے لفظ پتھر رکھ دیا کہ اب بھی رشک کرو تو نجات پاؤ لیکن آپ نے پھر بھی ان کی نہ مانی صاف انکار کر دیا اور اللہ کی توحید احد احد کے لفظ سے بیان فرماتے رہے بلکہ فرمایا کرتے تھے کہ "واللہ اگر اس سے بھی زیادہ تمہیں چبھنے والا کوئی لفظ میرے علم میں ہوتا تو میں وہی کہتا اللہ ان سے راضی رہے اور انہیں بھی ہمیشہ راضی رکھے۔ " اسی طرح حضرت خیب بن زیاد انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ کا واقعہ ہے کہ جب ان سے مسیلمہ کذاب نے کہا کہ کیا تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا ہاں۔ پھر اس نے آپ سے پوچھا کہ کیا میرے رسول اللہ ہونے کی بھی گواہی دیتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا میں نہیں سنتا۔ اس پر اس جھوٹے مدعی نبوت نے ان کے جسم کے ایک عضو کے کاٹ ڈالنے کا حکم دیا پھر یہی سوال جواب ہوا۔ دوسرا عضو جسم کٹ گیا یونہی ہوتا رہا لیکن آپ آخر دم تک اسی پر قائم رہے، اللہ آپ سے خوش ہو اور آپ کو بھی خوش رکھے۔ مسند احمد میں ہے کہ جو چند لوگ مرتد ہو گئے تھے، انہیں حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آگ میں جلوا دیا، جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو یہ واقعہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا میں تو انہیں آگ میں نہ جلاتا اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اللہ کے عذاب سے تم عذاب نہ کرو۔ ہاں بیشک میں انہیں قتل کرا دیتا۔ اس لئے کہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جو اپنے دین کو بدل دے اسے قتل کر دو۔ جب یہ خبر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہوئی تو آپ نے فرمایا ابن عباس کی ماں پر افسوس۔ اسے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے بھی وارد کیا ہے۔ مسند میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس یمن میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے۔ دیکھا کہ ایک شخص ان کے پاس ہے۔ پوچھا یہ کیا؟ جواب ملا کہ یہ ایک یہودی تھا، پھر مسلمان ہو گیا اب پھر یہودی ہو گیا ہے۔ ہم تقریباً دو ماہ سے اسے اسلام پر لانے کی کوشش میں ہیں، تو آپ نے فرمایا واللہ میں بیٹھوں گا بھی نہیں جب تک کہ تم اس کی گردن نہ اڑا دو۔ یہی فیصلہ ہے اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کہ جو اپنے دین سے لوٹ جائے اسے قتل کر دو یا فرمایا جو اپنے دین کو بدل دے۔ یہ واقعہ بخاری و مسلم میں بھی ہے لیکن الفاظ اور ہیں۔ پس افضل و اولیٰ یہ ہے کہ مسلمان اپنے دین پر قائم اور ثابت قدم رہے گو اسے قتل بھی کر دیا جائے۔ چنانچہ حافظ ابن عساکر رحمتہ اللہ علیہ عبداللہ بن حذافہ سہمی صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ترجمہ میں لائے ہیں کہ آپ کو رومی کفار نے قید کر لیا اور اپنے بادشاہ کے پاس پہنچا دیا، اس نے آپ سے کہا کہ تم نصرانی بن جاؤ میں تمہیں اپنے راج پاٹ میں شریک کر لیتا ہوں اور اپنی شہزادی تمہاری نکاح میں دیتا ہوں۔ صحابی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہ تو کیا اگر تو اپنی تمام بادشاہت مجھے دے دے اور تمام عرب کا راج بھی مجھے سونپ دے اور یہ چاہے کہ میں ایک آنکھ جھپکنے کے برابر بھی دین محمد سے پھر جاؤں تہ یہ بھی ناممکن ہے۔ بادشاہ نے کہا پھر میں تجھے قتل کر دوں گا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ہاں یہ تجھے اختیار ہے چنانچہ اسی وقت بادشاہ نے حکم دیا اور انہیں صلیب پر چڑھا دیا گیا اور تیر اندازوں نے قریب سے بحکم بادشاہ ان کے ہاتھ پاؤں اور جسم چھیدنا شروع کیا بار بار کہا جاتا تھا کہ اب بھی نصراینت قبول کر لو اور آپ پورے استقلال اور صبر سے فرماتے جاتے تھے کہ ہرگز نہیں آخر بادشاہ نے کہا اسے سولی سے اتار لو، پھر حکم دیا کہ پیتل کی دیگ یا پیتل کی کی بنی ہوئی گائے خوب تپا کر آگ بنا کر لائی جائے۔ چنانچہ وہ پیش ہوئی بادشاہ نے ایک اور مسلمان قیدی کی بابت حکم دیا کہ اسے اس میں ڈال دو۔ اسی وقت حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں آپ کے دیکھتے ہی دیکھتے اس مسلمان قیدی کو اس میں ڈال دیا گیا وہ مسکین اسی وقت چر مر ہو کر رہ گئے۔ گوشت پوست جل گیا ہڈیاں چمکنے لگیں، رضی اللہ عنہ۔ پھر بادشاہ نے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا کہ دیکھو اب بھی ہماری مان لو اور ہمارا مذہب قبول کر لو، ورنہ اسی آگ کی دیگ میں اسی طرح تمہیں بھی ڈال کر جلا دیا جائے گا۔ آپ نے پھر بھی اپنے ایمانی جوش سے کام لیکر فرمایا کہ ناممکن کہ میں اللہ کے دین کو چھوڑ دوں۔ اسی وقت بادشاہ نے حکم دیا کہ انہیں چرخی پر چڑھا کر اس میں ڈال دو، جب یہ اس آگ کی دیگ میں ڈالے جانے کے لئے چرخی پر اٹھائے گئے تو بادشاہ نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے ہیں، اسی وقت اس نے حکم دیا کہ رک جاؤ انہیں اپنے پاس بلا لیا، اس لئے کہ اسے امید بندھ گئی تھی کہ شاید اس عذاب کو دیکھ کر اب اس کے خیالات پلٹ گئے ہیں میری مان لے گا اور میرا مذہب قبول کر کے میرا داماد بن کر میری سلطنت کا ساجھی بن جائے گا لیکن بادشاہ کی یہ تمنا اور یہ خیال محض بےسود نکلا۔ حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ میں صرف اس وجہ سے رویا تھا کہ آج ایک ہی جان ہے جسے راہ حق میں اس عذاب کے ساتھ میں قربان کر رہا ہوں، کاش کہ میرے روئیں روئیں میں ایک ایک جان ہوتی کہ آج میں سب جانیں راہ اللہ اسی طرح ایک ایک کر کے فدا کرتا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ آپ کو قید خانہ میں رکھا کھانا پینا بند کر دیا، کئی دن کے بعد شراب اور خنزیر کا گوشت بھیجا لیکن آپ نے اس بھوک پر بھی اس کی طرف توجہ تک نہ فرمائی۔ بادشاہ نے بلوا بھیجا اور اسے نہ کھانے کا سبب دریافت کیا تو آپ نے جواب دیا کہ اس حالت میں یہ میرے لئے حلال تو ہو گیا ہے لیکن میں تجھ جیسے دشمن کو اپنے بارے میں خوش ہونے کا موقعہ دینا چاہتا ہی نہیں ہوں۔ اب بادشاہ نے کہا اچھا تو میرے سر کا بوسہ لے تو میں تجھے اور تیرے ساتھ کے اور تمام مسلمان قیدیوں کو رہا کر دیتا ہوں آپ نے اسے قبول فرما لیا اس کے سر کا بوسہ لے لیا اور بادشاہ نے بھی اپنا وعدہ پورا کیا اور آپ کو اور آپ کے تمام ساتھیوں کو چھوڑ دیا جب حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ یہاں سے آزاد ہو کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس پہنچے تو آپ نے فرمایا ہر مسلمان پر حق ہے کہ عبداللہ بن حذافہ (رضی اللہ تعالٰی عنہ) کا ماتھا چومے اور میں ابتدا کرتا ہوں یہ فرما کر پہلے آپ نے ان کے سر پر بوسہ دیا۔