وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ ﴿112﴾
‏ [جالندھری]‏ اور خدا ایک بستی کی مثال بیان فرماتا ہے کہ (ہر طرح) امن چین سے بستی تھی ہر طرف سے رزق بافراغت چلا آتا تھا مگر ان لوگوں نے خدا کی نعمتوں کی ناشکری کی تو خدا نے ان کے اعمال کے سبب ان کو بھوک اور خوف کا لباس پہنا کر (ناشکری کا) مزہ چکھا دیا۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
اللہ کی عظیم نعمت بعثت نبوی ہے
اس سے مراد اہل مکہ میں یہ امن و اطمینان میں تھے۔ آس پاس لڑائیاں ہوتیں، یہاں کوئی آنکھ بھر کر بھی نہ دیکھتا جو یہاں آ جاتا، امن میں سمجھا جاتا ۔ جیسے قرآن نے فرمایا ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہم ہدایت کی پیروی کریں تو اپنی زمین سے اچک لئے جائیں کیا ہم نے انہیں امن و امان کا حرم نہیں دے رکھا؟ جہاں ہماری روزیاں قسم قسم کے پھولوں کی شکل میں ان کے پاس چاروں طرف سے کھینچی چلی آتی ہیں۔ یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ عمدہ اور گزارے لائق روزی اس شہر کے لوگوں کے پاس ہر طرف سے آ رہی تھی لیکن پھر بھی یہ اللہ کی نعمتوں کے منکر رہے جن میں سب سے اعلیٰ نعمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تھی جیسے ارشاد باری ہے آیت (الم تر الی الذین بدلوا نعمتہ اللہ کفرا) الخ کیا تو نے انہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کو کفر سے بدل دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کی طرف پہنچا دیا جو جہنم ہے جہاں یہ داخل ہوں گے اور جو بری قرار گاہ ہے۔ ان کی اس سرکشی کی سزا میں دونوں نعمتیں دوزحمتوں سے بدل دی گئیں۔ امن خوف سے ، اطمینان بھوک اور گھبراہٹ سے، انہوں نے اللہ کے رسول کی نہ مانی۔ آپ کے خلاف کمر کس لی تو آپ نے ان کے لئے سات قحط سالیوں کی بد دعا دی۔ جیسی حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں تھیں۔ اس قحط سالی میں انہوں نے اونٹ کے خون میں لتھڑے ہوئے بال تک کھائے۔ امن کے بعد خوف آیا۔ ہر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے لشکر سے خوف زدہ رہنے لگے۔ آپ کی دن دگنی ترقی اور آپ کے لشکروں کی کثرت کا سنتے اور سھمے جاتے تھے یہاں تک کہ بالآخر اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے شہر مکہ پر چڑھائی کی اور اسے فتح کر کے وہاں قبضہ کر لیا۔ یہ ان کی بد اعمالیوں کا ثمرہ تھا کیونکہ یہ ظلم و زیادتی پر اڑے ہوئے تھے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرتے رہے تھے۔ جسے اللہ تعالٰی نے ان میں خود ان میں سے ہی بھیجا تھا جس احسان کا بیان آیت (لقد من اللہ) الخ میں فرمایا ہے اور اسی کا بیان آیت (فاتقوا اللہ یا اولی الالباب) الخ میں ہے اور اسی معنی کی آیت (کما ارسلنا فیکم) میں ہے تکفرون تک اس لطیفے کو بھی نہ بھولئے کہ جیسے کفر کی وجہ سے امن کے بعد خوف آیا اور فراخی کے بعد بھوک آئی ایمان کی وجہ سے خوف کے بعد امن ملا اور بھوک کے بعد حکومت، سرداری امارت اور امامت ملی۔ فسبحانہ ما اعظم شانہ۔ سلیم بن نمیر کہتے ہیں ہم حضرت حفصہ زوجہ محترمہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج سے لوٹتے ہوئے آ رہے تھے اس وقت مدینہ شریف میں خلیفتہ المومنین حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ گھرے ہوئے تھے۔ مائی صاحبہ اکثر راہ چلتوں سے ان کی بابت دریافت فرمایا کرتی تھیں۔ دو سواروں کو جاتے ہوئے دیکھ کر آدمی بھیجا کہ ان سے خلیفتہ الرسول کا حال پوچھو۔ انہوں نے خبر دی کہ افسوس آپ شہید کر دیئے گئے۔ اسی وقت آپ نے فرمایا اللہ کی قسم یہی وہ شہید ہے جس کی بات اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے آیت (وضرب اللہ) الخ عبید اللہ بن مغیرہ کے استاد کا بھی یہی قول ہے۔