وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ ۖ وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ﴿118﴾
‏ [جالندھری]‏ اور جو چیزیں ہم تم کو پہلے بیان کر چکے ہیں وہ ہم نے یہودیوں پر حرام کر دی تھیں۔ اور ہم نے ان پر کچھ ظلم نہیں کیا بلکہ وہی اپنے آپ پر ظلم کیا کرتے تھے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
دوسروں سے منسوب ہر چیز حرام ہے
اوپر بیان گزرا کہ اس امت پر مردار، خون، لحم، خنزیر اور اللہ کے سوا دوسروں کے نام سے منسوب کردہ چیزیں حرام ہیں۔ پھر جو رخصت اس بارے میں تھی اسے ظاہر فرما کر جو آسانی اس امت پر کی گئی ہے اسے بیان فرمایا۔ یہودیوں پر ان کی شریعت میں جو حرام تھا اور جو تنگ اور حرج ان پر تھا اسے بیان فرما رہا ہے کہ ہم نے ان کی حرمت کی چیزوں کو پہلے ہی سے تجھے بتا دیا ہے۔ سورہ انعام کی آیت (وعلی الذین ھادوا حرمنا کل ذی ظفر) میں ان حرام چیزوں کا ذکر ہو چکا ہے۔ یعنی یہودیوں پر ہم نے تمام ناخن والے جانوروں کو حرام کر دیا تھا اور گائے اور بکری کی چربی کو سوائے اس چربی کے جو ان کی پیٹھ پر لگی ہو یا انتڑیوں پر یا ہڈیوں سے ملی ہوئی ہو، یہ بدلہ تھا ان کی سرکشی کا ہم اپنے فرمان میں بالکل سچے ہیں۔ ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا تھا ہاں وہ خود نا انصاف تھے۔ ان کے ظلم کی وجہ سے ہم نے وہ پاکیزہ چیزیں جو ان پر حلال تھیں، حرام کر دیں دوسری وجہ ان کا راہ حق سے اوروں کو روکنا بھی تھا۔ پھر اللہ تعالٰی اپنے اس رحم و کرم کی خبر دیتا ہے جو وہ گنہگار مومنوں کے ساتھ کرتا ہے کہ ادھر اس نے توبہ کی، ادھر رحمت کی گود اس کے لئے پھیل گئی۔ بعض سلف کا قول ہے کہ جو اللہ کی نافرمانی کرتا ہے وہ جاہل ہی ہوتا ہے۔ توبہ کہتے ہیں گناہ سے ہٹ جانے کو اور اصلاح کہتے ہیں اطاعت پر کمر کس لینے کو پس جو ایسا کرے اس کے گناہ اور اس کی لغزش کے بعد بھی اللہ اسے بخش دیتا ہے اور اس پر رحم فرماتا ہے۔