وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ ۖ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ ﴿126﴾
‏ [جالندھری]‏ اور اگر تم ان کو تکلیف دینی چاہو تو اتنی ہی تکلیف دو جتنی تکلیف تم کو ان سے پہنچی اور اگر صبر کرو تو وہ صبر کرنے والوں کے لئے بہت اچھا ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
قصاص اور حصول قصاص
قصاص میں اور حق کے حاصل کرنے میں برابری اور انصاف کا حکم ہو رہا ہے ۔ امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ فرماتے ہیں اگر کوئی تم سے کوئی چیز لے لے تو تم بھی اس سے اسی جیسی لے لو ۔ ابن زید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ پہلے تو مشرکوں سے درگزر کرنے کا حکم تھا ۔ جب ذرا حیثیت دار لوگ مسلمان ہوئے تو انہوں نے کہا کہ اگر اللہ کی طرف سے بدلے کی رخصت ہو جائے تو ہم بھی ان کتوں سے نبڑ لیا کریں اس پر یہ آیت اتری آخر یہ بھی جہاد سے منسوخ ہو گئی ۔ حضرت عطا بن یسار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں سورہ نحل پوری مکے شریف میں اتری ہے مگر اس کی تین آخری آیتیں مدینے شریف میں اتری ہیں ۔ جب کہ جنگ احد میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ شہید کر دئے گئے اور آپ کے اعضائے جسم بھی شہادت کے بعد کاٹ لئے گئے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے بےساختہ نکل گیا کہ اب جب مجھے اللہ تعالٰی ان مشرکوں پر غلبہ دے تو میں ان میں سے تیس شخصوں کے ہاتھ پاؤں اسی طرح کاٹوں گا ۔ مسلمانوں کے کان میں جب اپنے
محترم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ پڑے تو ان کے جوش بہت بڑھ گئے اور کہنے لگے کہ واللہ ہم ان پر غالب آ کر ان کی لاشوں کے وہ ٹکڑے ٹکڑے کریں گے کہ عربوں نے کبھی ایسا دیکھا ہی نہ ہو گا اس پر یہ آیتیں اتریں (سیرت ابن اسحاق ) لیکن یہ روایت مرسل ہے اور اس میں ایک راوی ایسا بھی ہے جن کا نام ہی نہیں لیا گیا ، مبہم چھوڑا گیا ۔ ہاں دوسری سند سے یہ متصل بھی مروی ہے ۔ بزار میں ہے کہ جب حضرت حمزہ بن عبد المطلب رحمۃ اللہ علیہ شہید کر دئے گئے ۔ آپ پاس کھڑے ہو کر دیکھنے لگے آہ ! اس سے زیادہ دل دکھانے والا منظر اور کیا ہو گا کہ محترم چچا کی لاش کے ٹکڑے آنکھوں کے سامنے بکھرے پڑے ہیں ۔ آپ کی زبان مبارک سے نکلا کہ آپ پر اللہ کی رحمت ہو ، جہاں تک میرا علم ہے ، میں جانتا ہوں کہ آپ رشتے ناتے کے جوڑنے والے نیکیوں کو لپک کر کرنے والے تھے ۔ واللہ دوسرے لوگوں کے درد و غم کا خیال نہ ہوتا تو میں تو آپ کے اس جسم کو یونہی چھوڑ دیتا یہاں تک کہ آپ کو اللہ تعالٰی درندوں کے پیٹوں میں سے نکالتا یا اور کوئی ایسا ہی کلمہ فرمایا جب ان مشرکوں نے یہ حرکت کی ہے تو واللہ میں بھی ان میں کے ستر شخصوں کی یہی بری حالت بناؤں گا ۔ اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آئے اور یہ آیتیں آتری تو آپ اپنی قسم کے پورا کرنے سے رک گئے اور قسم کا کفارہ ادا کر دیا ۔ لیکن سند اس کی بھی کمزور ہے ۔ اس کے راوی صالح بشیر مری ہیں جو ائمہ اہل حدیث کے نزدیک ضعیف ہیں بلکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ تو انہیں منکر الحدیث کہتے ہیں ۔ شعبی اور ابن جریج کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی زبان سے نکلا تھا کہ ان لوگوں نے جو ہمارے شہیدوں کی بےحرمتی کی ہے اور ان کے اعضاء بدن کاٹ دئیے ہیں واللہ ہم بھی ان سے اس کا بدلہ لے کر ہی چھوڑیں گے ۔ پس اللہ تعالٰی نے ان کے بارے میں یہ آیتیں اتاریں ۔ مسند احمد میں ہے کہ جنگ احد میں ساٹھ انصاری شہید ہوئے اور چھ مہاجر رضی اللہ عنہم اجمعین تو اصحاب رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی زبان سے نکل گیا کہ جب ہم ان مشرکوں پر غلبہ پائیں تو ہم بھی ان کے ٹکڑے کئے بغیر نہ رہیں گے ۔ چنانچہ فتح مکہ والے دن ایک شخص نے کہا کہ آج کے دن کے بعد قریش پہچانے بھی نہ جائیں گے ۔ اسی وقت ندا ہوئی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں کو پناہ دیتے ہیں سوائے فلاں فلاں کے (جن کے نام لئے گئے ہیں ) اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت فرمایا کہ ہم صبر کرتے ہیں اور بدلہ نہیں لیتے ۔ اس آیت کریمہ کی مثالیں قرآن کریم میں اور بھی بہت سی ہیں ۔ اس میں عدل کی مشروعیت بیان ہوئی ہے اور افضل طریقے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ جیسے آیت (جزاء سیئۃسیئۃ مثلہا) الخ میں کہ برائی کا بدلہ لینے کی رخصت عطا فرما کر پھر فرمایا ہے کہ جو درکزر کر لے اور اصلاح کر لے اس کا اجر اللہ تعالٰی پر ہے اسی طرح آیت (والجروح قصاص) میں بھی زخموں کا بدلہ لینے کی اجازت دے کر فرمایا ہے کہ جو بطور صدقہ معاف کر دے یہ معافی اس کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گی ۔ اسی طرح اس آیت میں بھی برابر بدلہ لینے کے جواز کا ذکر فرما کر پھر ارشاد ہوا ہے کہ اگر صبر کر لو تو یہ بہت ہی بہتر ہے ۔ پھر صبر کی مزید تاکید کی اور ارشاد فرمایا کہ یہ ہر ایک کے بس کا کام نہیں یہ ان ہی سے ہو سکتا ہے جن کی مدد پر اللہ ہو اور جنہیں اس کی جانب سے توفیق نصیب ہوئی ہو ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اپنے مخالفین کا غم نہ کھا ، ان کی قسمت میں ہی مخالفت لکھ دی گئی ہے نہ ان کے فن فریب سے آزردہ خاطر ہو ۔ اللہ تجھے کافی ہے ، وہی تیرا مدد گار ہے ، وہی تجھے ان سب پر غالب کرنے والا ہے اور ان کی مکاریوں اور چلاکیوں سے بچانے والا ہے ۔ ان کی عداوت اور ان کے برے ارادے تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ 
ملائیکہ اور مجاہدین 
اللہ تعالٰی کی مدد اور اس کی تائید ہدایات اور اس کی توفیق ان کے ساتھ ہے ، جن کے دل اللہ کے ڈر سے اور جن کے اعمال احسان کے جوہر سے مال مال ہوں ۔ چنانچہ جہاد کے موقعہ پر اللہ تعالٰی نے فرشتوں کی طرف وحی اتاری تھے کہ آیت (انی معکم فثبتو الذین امنوا) میں تمہارے ساتھ ہوں پس تم ایمانداروں کو ثابت قدم رکھو ، اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہما السلام سے فرمایا تھا آیت (لا تخافا اننی معکما اسمع واری) تم خوف نہ کھاؤ میں تمہارے ساتھ ہوں ، دیکھتا سنتا ہوں ۔ غار میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا تھا آیت (لا تحزن ان اللہ معنا) غم نہ کرو اللہ تعالٰی ہمارے ساتھ ہے ۔ پس یہ ساتھ تو خاص تھا ۔ اور مراد اس سے تائید و نصرت الہٰی کا ساتھ ہونا ہے ۔ اور عام ساتھ کا بیان آیت (وھو معکم اینما کنتم واللہ بما تعملون بصیر) اور آیت (ما تکون من نجوی ثلاثۃ الا ہو رابعہم) الخ اور آیت (وما یکون فی شان) الخ میں ہے یعنی اللہ تعالٰی تمہارے ساتھ ہے ، جہاں بھی تم ہو اور وہ تمہارے اعمال دیکھنے والا ہے اور جو تین شخص کوئی سرگوشی کرنے لگیں ان میں چوتھا اللہ تعالٰی ہوتا ہے اور پانچ میں چھٹا وہ ہوتا ہے اور اس سے کم و بیش میں بھی جہاں وہ ہوں ، اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے اور تم کسی حال میں ہو یا تلاوت قرآن میں ہو یا تم اور کوئی کام میں لگے ہوئے ہو ہم تم پر شاہد ہوتے ہیں پس ان آیتوں میں ساتھ سے مراد سننے دیکھنے کا ساتھ ہے تقویٰ کے معنی ہیں حرام کاموں اور گناہ کے کاموں کو اللہ کے فرمان پر ترک کر دینے کے ۔ اور احسان کے معنی ہیں پروردگار کی اطاعت و عبادت کو بجا لانا ۔ جن لوگوں میں یہ دونوں صفتیں ہوں وہ اللہ تعالٰی کی حفظ و امان میں رہتے ہیں ، جناب باری ان کی تائید اور مدد فرماتا رہتا ہے ۔ ان کے مخالفین اور دشمن ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے بلکہ اللہ تعالٰی انہیں ان سب پر کامیابی عطا فرماتا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں حضرت محمد بن حاطب رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ ان لوگوں میں سے تھے جو باایمان پرہیزگار اور نیک کار ہیں ۔