وَقَضَيْنَا إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ فِي الْكِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْأَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيرًا ﴿4﴾
‏ [جالندھری]‏ اور ہم نے کتاب میں بنی اسرائیل سے کہہ دیا تھا کہ تم زمین میں دو دفعہ فساد مچاؤ گے اور بڑی سرکشی کرو گے ‏
تفسیر ابن كثیر
پیشین گوئی
جو کتاب بنی اسرائیل پر اتری تھی اس میں ہی اللہ تعالٰی نے انہیں پہلے ہی سے خبر دے دی تھی کہ وہ زمین پر دو مرتبہ سرکشی کریں گے اور سخت فساد برپا کریں گے پس یہاں پر قضینا کے معنی مقرر کر دینا اور پہلے ہی سے خبر دے دینا کے ہیں ۔ جیسے آیت (وقضینا الیہ ذالک الامر) میں یہی معنی ہیں ۔ بس ان کے پہلے فساد کے وقت ہم نے اپنی مخلوق میں سے ان لوگوں کو ان کے اوپر مسلط کیا جو بڑے ہی لڑنے والے سخت جان اور سازو سامان سے پورے لیس تھے وہ ان پر چھا گئے ان کے شہر چھین لئے لوٹ مار کر کے ان کے گھروں تک کو خالی کر کے بےخوف و خطر واپس چلے گئے ، اللہ کا وعدہ پورا ہونا ہی تھا کہتے ہیں کہ یہ جالوت کا لشکر تھا ۔ پھر اللہ نے بنی اسرائیل کی مدد کی اور یہ حضرت طالوت کی بادشاہت میں پھر لڑے اور حضرت داؤد علیہ السلام نے جالوت کو قتل کیا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ موصل کے بادشاہ سخایرب اور اس کے لشکر نے ان پر فوج کشی کی تھے ۔ بعض کہتے ہیں بابل کا بادشاہ بخت نصر چڑھ آیا تھا ۔ ابن ابی حاتم نے یہاں پر ایک عجیب و غریب قصہ نقل کیا ہے کہ کس طرح اس شخص نے بتدریج ترقی کی تھے ۔ اولاً یہ ایک فقیر تھا پڑا رہتا تھا اور بھیک مانگ کر گزارہ کرتا تھا پھر تو بیت المقدس تک اس نے فتح کر لیا اور وہاں پر بنی اسرائیل کو بےدریخ قتل کیا ۔ این جریر نے اس آیت کی تفسیر میں ایک مطول مرفوع حدیث بیان کی ہے جو محض موضوع ہے اور اس کے موضوع ہونے میں کسی کو ذرا سا بھی شک نہیں ہو سکتا ۔ تعجب ہے کہ باوجود اس قدر وافر علم کے حضرت امام صاحب نے یہ حدیث وارد کر دی ہمارے استاد شیخ حافظ علامہ ابو الحجاج مزی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے موضوع ہونے کی تصریح کی ہے ۔ اور کتاب کے حاشیہ پر لکھ بھی دیا ہے ۔ اس باب میں بنی اسرائیلی روایتیں بھی بہت سی ہیں لیکن ہم انہیں وارد کر کے بےفائدہ اپنی کتاب کو طول دینا نہیں چاہتے کیونکہ ان میں سے بعض تو موضوع ہیں اور بعض گو ایسی نہ ہوں لیکن بحمد للہ ہمیں ان روایتوں کی کوئی ضرورت نہیں ۔ کتاب اللہ ہمیں اور تمام کتابوں سے بےنیاز کر دینے والی ہے ۔ 
اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں نے ہمیں ان چیزوں کا محتاج نہیں رکھا مطلب صرف اس قدر ہے کہ بنی اسرائیل کی سرکشی کے وقت اللہ نے ان کے دشمن ان پر مسلط کر دئے جنہوں نے انہیں خوب مزہ چکھایا بری طرح درگت بنائی ان کے بال بچوں کو تہ تیغ کیا انہیں اس قدر و ذلیل کیا کہ ان کے گھروں تک میں گھس کر ان کا ستیاناس کیا اور ان کی سرکشی کی پوری سزا دی ۔ انہوں نے بھی ظلم و زیادتی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی عوام تو عوام انہوں نے تو نبیوں کے گلے کاٹے تھے ، علماء کو سر بازار قتل کیا تھا ۔ بخت نصر ملک شام پر غالب آیا بیت المقدس کو ویران کر دیا وہاں کم باشندوں کو قتل کیا پھر دمشق پہنچا یہاں دیکھا کہ ایک سخت پتھر پر خون جوش مار رہا ہے پوچھا یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا ہم نے تو اسے باپ دادوں سے اسی طرح دیکھا ہے یہ خون برابر ابلتا رہتا ہے ٹھیرتا نہیں اس نے وہیں پر قتل عام شروع کر دیا ستر ہزرا مسلمان وغیرہ اس کے ہاتھوں یہاں یہ قتل ہوئے پس وہ خون ٹہر گیا ۔ اس نے علماء اور حفاظ کو اور تمام شریف اور ذی عزت لوگوں کو بید ردی سے قتل کیا ان میں کوئی بہی حافظ تورات نہ بچا ۔ پھر قید کرنا شروع کیا ان قیدیوں میں نبی زادے بھی تھے ۔ غرض ایک لرزہ خیز ہنگامہ ہوا لیکن چونکہ صحیح روایتوں سے بلکہ صحت کے قریب والی روایتوں سے بھی تفصیلات نہیں ملتی اس لئے ہم نے انہیں چھوڑ دیا ہے واللہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے نیکی کرنے والا دراصل اپنے لئے ہی بھلا کرتا ہے اور برائی کرنے والا حقیقت میں اپنا ہی برا کرتا ہے جیسے ارشاد ہے ۔ آیت (من عمل صالحا فلنفسہ ومن اساء فعلیہا) جو شخص نیک کام کرے وہ اس کے اپنے لئے ہے اور جو برائی کرے اس کا بوجھ اسی پر ہے ۔ پھر جب دوسرا وعدہ آیا اور پھر بنی اسرائیل نے اللہ کی نافرمانیوں پر کھلے عام کمر کس لی اور بےباکی اور بےحیائی کے ساتھ ظلم کرنے شروع کر دئے تو پھر ان کے دشمن چڑھ دوڑے کہ وہ ان کی شکلیں بگاڑ دیں اور بیت المقدس کی مسجد جس طرح پہلے انہوں نے اپنے قبضے میں کر لی تھی اب پھر دوبارہ کر لیں اور جہاں تک بن پڑے ہر چیز کا ستیاناس کر دیں چنانچہ یہ بھی ہو کر رہا ۔ تمہارا رب تو ہے ہی رحم و کرم کرنے والا اور اس سے ناامیدی نازیبا ہے ، بہ ممکن ہے کہ پھر سے دشمنوں کو پست کر دے ہاں یہ یاد رہے کہ ادھر تم نے سر اٹھایا ادھر ہم نے تمہارا سر کچلا ۔ ادھر تم نے فساد مچایا ادھر ہم نے برباد کیا ۔ یہ تو ہوئی دنیوی سزا ۔ ابھی آخرت کی زبردست اور غیر فانی سزا باقی ہے ۔ جہنم کافروں کا قید خانہ ہے جہاں سے نہ وہ نکل سکین نہ چھوٹ سکیں نہ بھاگ سکیں ۔ ہمیشہ کے لئے ان کا اوڑھنا بچونا یہی ہے ۔ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں پھر بھی انہوں نے سر اٹھایا اور بالکل فرمان الہٰی کو چھوڑا اور مسلمانوں سے ٹکرا گئے تو اللہ تعالٰی نے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان پر غالب کیا اور انہیں جزیہ دینا پڑا ۔