وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا ﴿26﴾
‏ [جالندھری]‏ اور رشتہ داروں اور محتاجوں اور مسافروں کو ان کا حق ادا کرو اور فضول خرچی سے مال نہ اُڑاؤ ‏
تفسیر ابن كثیر
ماں باپ سے حسن سلوک کی تاکید
ماں باپ سے پھر جو زیادہ قریب ہو اور جو زیادہ قریب ہو ، اور حدیث میں ہے جو اپنے رزق کی اور اپنی عمر کی ترقی چاہتا ہو اسے صلہ رحمی کرنی چاہئے ۔ بزاز میں ہے اس آیت کے اترتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو بلا کر فدک عطا فرمایا ۔ اس حدیث کی سند صحیح نہیں ۔ اور واقعہ بھی کچھ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا اس لئے کہ یہ آیت مکیہ ہے اور اس وقت تک باغ فدک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضے میں نہ تھا۔ 
٧ ھ میں خیبر فتح ہوا تب باغ آپ کے قبضے میں آیا پس یہ قصہ اس پر پورا نہیں اترتا ۔ مساکین اور مسافرین کی پوری تفسیر سورہ برات میں گزر چکی ہے یہاں دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں ۔ خرچ کا حکم کر کے پھر اسراف سے منع فرماتا ہے ۔ نہ تو انسان کو بخیل ہونا چأہیے نہ مسرف بلکہ درمیانہ درجہ رکھے ۔ جیسے اور آیت میں ہے (والذین اذا انفقوا لم یسرفوا ولم یقتروا) الخ یعنی ایماندار اپنے خرچ میں نہ تو حد سے گزرتے ہیں نہ بالکل ہاتھ روک لیتے ہیں ۔ پھر اسراف کی برائی بیان فرماتا ہے کہ ایسے لوگ شیطان جیسے ہیں ۔ تبذیر کہتے ہیں غیر حق میں خرچ کرنے کو ۔ اپنا کل مال بھی اگر راہ للہ دے دے تو یہ تبدیر و اسراف نہیں اور غیر حق میں تھوڑا سا بھی دے تو مبذر ہے بنو تمیم کے ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں مالدار آدمی ہوں اور اہل و عیال کنبے قبیلے والا ہوں تو مجھے بتائیے کہ میں کیا روش اختیار کروں ؟ آپ نے فرمایا اپنے مال کی زکوۃ الگ کر ، اس سے تو پاک صاف ہو جائے گا۔ اپنے رشتے داروں سے سلوک کر سائل کا حق پہنچاتا رہ اور پڑوسی اور مسکین کا بھی ۔ اس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور تھوڑے الفاظ میں پوری بات سمجھا دیجئے ۔ آپ نے فرمایا قرابت داروں مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کر اور بےجا خرچ نہ کر ۔ اس نے کہا حسبی اللہ اچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب میں آپ کے قاصد کو زکوۃ ادا کر دوں تو اللہ و رسول کے نزدیک میں بری ہو گیا ؟ آپ نے فرمایا ہاں جب تو نے میرے قاصد کو دے دیا تو تو بری ہو گیا اور تیرے لئے جو اجر ثابت ہو گیا ۔ اب جو اسے بدل ڈالے اس کا گناہ اس کے ذمے ہے ۔ یہاں فرمان ہے کہ اسراف اور بیوقوفی اور اللہ کی اطاعت کے ترک اور نافرمانی کے ارتکاب کی وجہ سے مسرف لوگ شیطان کے بھائی بن جاتے ہیں ۔ شیطان میں یہی بد خصلت ہے کہ وہ رب کی نعمتوں کا شکر اس کی اطاعت کا تارک اسی کی نافرمانی اور مخالفت کا عامل ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ان قرابت داروں ، مسکینوں ، مسافروں میں سے کوئی کبھی تجھ سے کچھ سوال کر بیٹھے اور اس وقت تیرے ہاتھ تلے کچھ نہ ہو اور اس وجہ سے تجھے ان سے منہ پھیر لینا پڑے تو بھی جواب نرم دے کہ بھائی جب اللہ ہمیں دے گا انشاء اللہ ہم آپ کا حق نہ بھولیں گے وغیرہ ۔