وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۚ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا ﴿34﴾
‏ [جالندھری]‏ اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ پھٹکنا مگر ایسے طریق سے کہ بہت بہتر ہو یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائے، اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
یتیم کا مال
یتیم کے مال میں بد نیتی سے ہیر پھیر نہ کرو ، ان کے مال ان کی بلوغت سے پہلے صاف ڈالنے کے ناپاک ارادوں سے بچو ۔ جس کی پرورش میں یہ یتیم بچے ہوں اگر وہ خود مالدار ہے تب تو اسے ان یتیموں کے مال سے بالکل الگ رہنا چاہئے اور اگر وہ فقیر محتاج ہے تو خیر بقدر معروف کھا لے ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا میں تو تجھے بہت کمزور دیکھ رہا ہوں اور تیرے لئے وہی پسند فرماتا ہوں ، جو خود اپنے لئے چاہتا ہوں ۔ خبردار کبھی دو شخصوں کا والی نہ بننا اور نہ کبھی یتیم کے مال کا متولی بننا ۔ پھر فرماتا ہے وعدہ وفائی کیا کرو جو وعدے وعید جو لین دین ہو جائے اس کی پاسبانی کرو اس کی بابت قیامت کے دن جواب دہی ہو گی ۔ ناپ پیمانہ پورا پورا کر دیا لوگوں کو ان کی چیز گھٹا کر کم نہ دو ۔ 
قسطاس کی دوسری قرأت قسطاس بھی ہے پھر حکم ہوتا ہے بغیر پاسنگ کی صحیح وزن بتانے والی سیدھی ترازو سے بغیر ڈنڈی مارے تولا کرو ، دونوں جہان میں تم سب کے لئے یہی بہتری ہے دنیا میں بھی یہ تمہارے لین دین کی رونق ہے اور آخرت میں بھی یہ تمہارے چھٹکارے کی دلیل ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں اے تاجرو تمہیں ان دو چیزوں کو سونپا گیا ہے جن کی وجہ سے تم سے پہلے کے لوگ برباد ہو گئے یعنی ناپ تول نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص کسی حرام پر قدرت رکھتے ہوئے صرف خوف اللہ سے اسے چھوڑ دے تو اللہ تعالٰی اسی دنیا میں اسے اس سے بہتر چیز عطا فرمائے گا ۔