وَمَا مَنَعَنَا أَنْ نُرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَنْ كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ ۚ وَآتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوا بِهَا ۚ وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا ﴿59﴾
‏ [جالندھری]‏ اور ہم نے نشانیاں بھیجنی اس لیے موقوف کردیں کہ اگلے لوگوں نے اس کی تکذیب کی تھی اور ہم نے ثمود کو اونٹنی (نبوت صالح کی کھلی) نشانی دی تو انہوں نے اس پر ظلم کیا اور ہم جو نشانیاں بھیجا کرتے ہیں تو ڈرانے کو۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
عجیب و غریب مانگ 
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے کافروں نے آپ سے کہا کہ حضرت آپ کے پہلے کے انبیاء میں سے بعض کے تابع ہوا تھی ، بعض مردوں کو زندہ کر دیا کرتے تھے ، وغیرہ ۔ اب اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم بھی آپ پر ایمان لائیں تو آپ اس صفا پہاڑ کو سونے کا کر دیئجے ، ہم آپ کی سچائی کے قائل ہو جائیں گے ۔ آپ پر وحی آئی کہ اگر آپ کی بھی یہی خواہش ہو تو میں اس پہاڑ کو ابھی سونے کا بنا دیتا ہوں ۔ لیکن یہ خیال رہے کہ اگر پھر بھی یہ ایمان نہ لائے تو اب انہیں مہلت نہ ملے گی ، فی الفور عذاب آ جائے گا اور تباہ کر دئے جائیں گے ۔ اور اگر آپ کو انہیں تاخیر دینے اور سوچنے کا موقع دینا منظور ہے تو میں ایسا کروں ۔ آپ نے فرمایا اے اللہ میں انہیں باقی رکھنے میں ہی خوش ہوں ۔ مسند میں اتنا اور بھی ہے کہ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ باقی کی اور پہاڑیاں یہاں سے کھسک جائیں تاکہ ہم یہاں کھیتی باڑی کر سکیں ۔ الخ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اور روایت میں ہے کہ آپ نے دعا مانگی ، جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہا آپ کا پروردگار آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو صبح کو ہی یہ پہاڑ سونے کا ہو جائے لیکن اگر پھر بھی ان میں سے کوئی ایمان نہ لایا تو اسے وہ سزا ہو گی جو اس سے پہلے کسی کو نہ ہوئی ہو اور اگر آپ کا ارادہ ہو تو میں ان پر توبہ اور رحمت کے دروازے کھلے چھوڑوں ۔ آپ نے دوسری شق اختیار کی ۔ مسند ابو یعلی میں ہے کہ آیت (وانذر عشیرتک) الخ جب اتری تو تعمیل ارشاد کے لئے جبل ابی قبیس پر چڑھ گئے اور فرمانے لگے اے بنی عبد مناف میں تمہیں ڈرانے والا ہوں ۔ قیش یہ آواز سنتے ہی جمع ہو گئے پھر کہنے لگے سنئے آپ نبوت کے مدعی ہیں ۔ سلیمان نبی علیہ السلام کے تابع ہوا تھی ، موسیٰ نبی علیہ السلام کے تابع دریا ہو گیا تھا ، عیسیٰ نبی علیہ السلام مردوں کو زندہ کر دیا کرتے تھے ۔ تو بھی نبی ہے اللہ سے کہہ کہ یہ پہاڑ یہاں سے ہٹوا کر زمین قابل زراعت بنا دے تاکہ ہم کھیتی باڑی کریں ۔ یہ نہیں تو ہمارے مردوں کی زندگی کی دعا اللہ سے کر کہ ہم اور وہ مل کر بیٹھیں اور ان سے باتیں کریں ۔ یہ بھی نہیں تو اس پہاڑ کو سونے کا بنوا دے کہ ہم جاڑے اور گرمیوں کے سفر سے نجات پائیں اسی وقت آپ پر وحی اترنی شروع ہو گئی اس کے خاتمے پر آپ نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم نے جو کچھ مجھ سے طلب کیا تھا مجھے اس کے ہو جانے میں اور اس بات میں کہ دروازہ رحمت میں چلے جاؤ ، اختیار دیا گیا کہ ایمان اسلام کے بعد تم رحمت الہٰی سمیٹ لو یا تم یہ نشانات دیکھ لو لیکن پھر نہ مانو تو گمراہ ہو جاؤ اور رحمت کے دروازے تم پر بند ہو جائیں تو میں تو ڈر گیا اور میں نے در رحمت کا کھلا ہونا ہی پسند کیا ۔ کیونکہ دوسری صورت میں تمہارے ایمان نہ لانے پر تم پر وہ عذاب اترتے جو تم سے پہلے کسی پر نہ اترے ہوں اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ اور آیت (ولو ان قراٰنا سیرت) الخ ، نازل ہوئی یعنی آیتوں کے بھیجنے اور منہ مانگے معجزوں کے دکھانے سے ہم عاجز تو نہیں بلکہ یہ ہم پر بہت آسان ہے جو تیری قوم چاہتی ہے ، ہم انہیں دکھا دیتے لیکن اس صورت میں ان کے نہ ماننے پر پھر ہمارے عذاب نہ رکتے ۔ اگلوں کو دیکھ لو کہ اسی میں برباد ہوئے ۔ چنانچہ سورہ مائدہ میں ہے کہ میں تم پر دستر خوان اتار رہا ہوں لیکن اس کے بعد جو کفر کرے گا اسے ایسی سزا دی جائے گی جو اس سے پہلے کسی کو نہ ہوئی ہو۔ ثمودیوں کو دیکھو کہ انہوں نے ایک خاص پتھر میں اسے اونٹنی کا نکلنا طلب کیا ۔ حضرت صالح علیہ السلام کی دعا پر وہ نکلی لیکن وہ نہ مانے بلکہ اس اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں ، رسول کو جھٹلاتے رہے ، جس پر انہیں تین دن کی 
مہلت ملی اور آخر غارت کر دئے گئے ۔ ان کی یہ اونٹنی بھی اللہ کی وحدانیت کی ایک نشانی تھی اور اس کے رسول کی صداقت کی علامت تھی ۔ لیکن ان لوگوں نے پھر بھی کفر کیا، اس کا پانی بند کیا بالاخر اسے قتل کر دیا ، جس کی پاداش میں اول سے لے کر آخر تک سب مار ڈالے گئے اور اللہ غالب کی پکڑ میں آ گئے ، آیتیں صرف دھمکانے کے لئے ہوتی ہیں کہ وہ عبرت و نصیحت حاصل کر لیں ۔ مروی ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں کوفے میں زلزلہ آیا تو آپ نے فرمایا اللہ تعالٰی چاہتا ہے کہ تم اس کی جانب جھکو ، تمہیں فورا اس کی طرف متوجہ ہو جانا چاہئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں مدینہ شریف میں کئی بار جھٹکے محسوس ہوئے تو آپ نے فرمایا واللہ تم نے ضرور کوئی نئی بات کی ہے ، دیکھو اگر اب ایسا ہوا تو میں تمہیں سخت سزائیں کروں گا ۔ متفق علیہ حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا سورج چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ان میں کسی کی موت و حیات سے گرہن نہیں لگتا بلکہ اللہ تعالٰی ان سے اپنے بندوں کو خوفزدہ کر دیتا ہے ، جب تم یہ دیکھو تو ذکر اللہ دعا اور استغفار کی طرف جھک پڑو ۔ اے امت محمد واللہ اللہ سے زیادہ غیرت والا کوئی نہیں کہ اس کے لونڈی غلام زنا کاری کریں ۔ اے امت محمد واللہ جو میں جانتا ہوں ، اگر تم جانتے تو بہت کم ہنستے زیادہ روتے ۔