وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَى بِجَانِبِهِ ۖ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ يَئُوسًا ﴿83﴾
‏ [جالندھری]‏ اور جب ہم انسان کو نعمت بخشتے ہیں تو روگرداں ہوجاتا اور پہلو بھیر لیتا ہے۔ اور جب اسے سختی پہنچتی ہے تو نا امید ہو جاتا ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
انسانی فطرت میں خیر و شر موجود ہے
خیر و شر برائی بھلائی جو انسان کی فطرت میں ہیں ، قرآن کریم ان کو بیان فرما رہا ہے ۔ مال ، عافیت ، فتح ، رزق ، نصرت ، تائید ، کشادگی ، آرام پاتے ہی نظریں پھیر لیتا ہے ۔ اللہ سے دور ہو جاتا ہے گویا اسے کبھی برائی پہنچنے کی ہی نہیں ۔ اللہ سے کروٹ بدل لیتا ہے گویا کبھی کی جان پہچان ہی نہیں اور جہاں مصیبت ، تکلیف ، دکھ ، درد ، آفت ، حادثہ پہنچا اور یہ نا امید ہوا ، سمجھ لیتا ہے کہ اب بھلائی ، عافیت ، راحت ، آرام ملنے ہی کا نہیں ۔ قرآن کریم اور جگہ ارشاد فرماتا ہے آیت (ولئن اذقنا الانسان منا رحمۃ ثم نزعنا ھا منہ انہ لیوس قیوط ولئن اذقناہ نعماء بعد ضراء مستہ لیقولن ذھب السیات عنی انہ لفرح فخور الا الذین صبروا وعملوا الصالحات اولئک لہم مغفرۃ واجر کبیر) انسان کو راحتیں دے کر جہاں ہم نے واپس لے لیں کہ یہ محض مایوس اور ناشکرا بن گیا اور جہاں مصیبتوں کے بعد ہم نے عافیتیں دیں یہ پھول گیا ، گھمنڈ میں آ گیا اور ہانک لگانے لگا کہ بس اب برائیاں مجھ سے دور ہو گئیں ۔ فرماتا ہے کہ ہر شخص اپنی اپنی طرز پر ، اپنی طبیعت پر ، اپنی نیت پر ، اپنے دین اور طریقے پر عامل ہے تو لگے رہیں ۔ اس کا علم کہ فی الواقع راہ راست پر کون ہے ، صرف اللہ ہی کو ہے ۔ اس میں مشرکین کو تنبیہ ہے کہ وہ اپنے مسلک پر گو کار بند ہوں اور اچھا سمجھ رہے ہوں لیکن اللہ کے پاس جا کر کھلے گا کہ جس راہ پر وہ تھے وہ کیسی خطرناک تھی ۔ جیسے فرمان ہے کہ بے ایمانوں سے کہہ دو کہ اچھا ہم اپنی جگہ اپنے کام کرتے جاؤ الخ ، بدلے کا وقت یہ نہیں ، قیامت کا دن ہے ، نیکی بدی کی تمیز اس دن ہو گی ، سب کو بدلے ملیں گے ، اللہ پر کوئی امر پوشیدہ نہیں ۔