وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَنْ يُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَى إِلَّا أَنْ قَالُوا أَبَعَثَ اللَّهُ بَشَرًا رَسُولًا ﴿94﴾
‏ [جالندھری]‏ اور جب لوگوں کے پاس ہدایت آگئی تو ان کو ایمان لانے سے اس کے سوا کوئی چیز مانع نہ ہوئی کہ کہنے لگے کیا خدا نے آدمی کو پیغمبر کر کے بھیجا ہے؟ ‏
تفسیر ابن كثیر
فکری مغالطے اور کفار
اکثر لوگ ایمان سے اور رسولوں کی تابعداری سے اسی بنا پر رک گئے کہ انہیں یہ سمجھ نہ آیا کہ کوئی انسان بھی رسول بن سکتا ہے ۔ وہ اس پر سخت تر متعجب ہوئے اور آخر انکار کر بیٹھے اور صاف کہہ گئے کہ کیا ایک انسان ہماری رہبری کرے گا ؟ فرعون اور اسکی قوم نے بھی یہی کہا تھا کہ ہم اپنے جیسے دو انسانوں پر ایمان کیسے لائیں خصوصا اس صورت میں کہ ان کی ساری قوم ہمارے ماتحتی میں ہے ۔ یہی اور امتوں نے اپنے زمانے کے نبیوں سے کہا تھا کہ تم تو ہم جیسے ہی انسان ہو سوا اس کے کچھ نہیں کہ تم ہمیں اپنے بڑوں کے معبودوں سے بہکا رہے ہو اچھا لاؤ کوئی زبردست ثبوت پیش کرو ۔ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں ۔ اسکے بعد اللہ اپنے لطف و کرم اور انسانوں میں سے رسولوں کے بھیجنے کی وجہ کو بیان فرماتا ہے اور اس حکمت کو ظاہر فرماتا ہے کہ اگر فرشتے رسالت کا کام انجام دیتے تو نہ انکے پاس تم بیٹھ اٹھ سکتے نہ انکی باتیں پوری طرح سے سمجھ سکتے ۔ انسانی رسول چونکہ تمہارے ہی ہم جنس ہوتے ہیں تم ان سے خلا ملا رکھ سکتے ہو ، ان کی عادات و اطوار دیکھ سکتے ہو اور مل جل کر ان سے اپنی زبان میں تعلیم حاصل کر سکتے ہو ، ان کا عمل دیکھ کر خود سیکھ سکتے ہو جیسے فرمان ہے آیت (لقد من اللہ علی المومنین) الخ ۔ اور آیت میں ہے (لقد جاء کم رسول من انفسکم) الخ ۔ اور آیت میں ہے (کما ارسلنا فیکم رسولا منکم) الخ ۔ مطلب سب کا یہی ہے کہ یہ تو اللہ کا زبردست احسان ہے کہ اس نے تم میں سے ہی اپنے رسول بھیجے کہ وہ آیات الہٰی تمہیں پڑھ کر سنائیں، تمہارے اخلاق پاکیزہ کریں اور تمہیں کتاب و حکمت سکھائیں اور جن چیزوں سے تم بےعلم تھے وہ تمہیں عالم بنا دیں پس تمہیں میری یاد کی کثرت کرنی چاہئے تاکہ میں بھی تمہیں یاد کروں ۔ تمہیں میری شکر گزاری کرنی چاہئے اور ناشکری سے بچنا چاہئے ۔ یہاں فرماتا ہے کہ اگر زمین کی آبادی فرشتوں کی ہوتی تو بیشک ہم کسی آسمانی فرشتے کو ان میں رسول بنا کر بھیجتے چونکہ تم خود انسان ہو ہم نے اسی مصلحت سے انسانوں میں سے ہی اپنے رسول بنا کر تم میں بھیجے۔