قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَائِنَ رَحْمَةِ رَبِّي إِذًا لَأَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْإِنْفَاقِ ۚ وَكَانَ الْإِنْسَانُ قَتُورًا ﴿100﴾
‏ [جالندھری]‏ کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے تو تم خرچ ہوجانے کے خوف سے (ان کو) بند رکھتے اور انسان دل کا بہت تنگ ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
انسانی فطرت کا نفسیانی تجزیہ
انسانی طبیعت کا خاصہ بیان ہو رہا ہے کہ رحمت الہٰی جیسی نہ کم ہونے والی چیزوں پر بھی اگر یہ قابض ہو جائے تو ہاں بھی اپنی بخیلی اور تنگ دلی نہ چھوڑے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ اگر ملک کے کسی حصے کے یہ مالک ہو جائیں تو کسی کو ایک کوڑی پرکھنے کو نہ دیں ۔ پس یہ انسانی طبیعت ہے ہاں جو اللہ کی طرف سے ہدایت کئے جائیں اور توفیق خیر دئیے جائیں وہ اس بدخصلت سے نفرت کرتے ہیں وہ سخی اور دوسروں کا بھلا کرنے والے ہوتے ہیں ۔ انسان بڑا ہی جلد باز ہے تکلیف کے وقت لڑکھڑا جاتا ہے اور راحت کے وقت بھول جاتا ہے اور دوسروں کے فائدہ سے اپنے ہاتھ روکنے لگتا ہے ہاں نمازی لوگ اس سے بری ہیں الخ ایسی آیتیں قرآن میں اور بھی بہت سی ہیں ۔ اس سے اللہ کے فضل و کرم اس کی بخشش و رحم کا پتہ چلتا ہے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ دن رات کا خرچ اللہ کے ہاتھ میں ہیں اس میں کوئی کمی نہیں لاتا ابتدا سے اب تک کے خرچ نے بھی اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں کی ۔