وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ۖ فَاسْأَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءَهُمْ فَقَالَ لَهُ فِرْعَوْنُ إِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا مُوسَى مَسْحُورًا ﴿101﴾
‏ [جالندھری]‏ اور ہم نے موسیٰ کو نو کھلی نشانیاں دیں تو بنی اسرائیل سے دریافت کر لو کہ جب وہ ان کے پاس آئے تو فرعون نے ان سے کہا کہ موسی! میں خیال کرتا ہوں کہ تم پر جادو کیا گیا ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
پانچ معجزے
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تو ایسے معجزے ملے جو آپ کی نبوت کی صداقت اور نبوت پر کھلی دلیل تھی ۔ لکڑی ، ہاتھ ، قحط ، دریا ، طوفان ، ٹڈیاں ، جوئیں ، مینڈک اور خون ۔ یہ تھیں تفصیل وار آیتیں ۔ محمد بن کعب کا قول ہے کہ یہ معجزے یہ ہیں ہاتھ کا چمکیلا بن جانا ۔ لکڑی کا سانپ ہو جانا اور پانچ وہ جن کا بیان سورہ اعراف میں ہے اور مالوں کا مٹ جانا اور پتھر ۔ ابن عباس وغیرہ سے مروی ہے کہ یہ معجزے آپ کا ہاتھ ، آپ کی لکڑی ، قحط سالیاں پھلوں کی کمی طوفان ٹڈیان جوئیں مینڈگ اور خون ہیں ۔ یہ قول زیادہ ظاہر ، بہت صاف ، بہتر اور قوی ہے ۔ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے ان میں سے قحط سالی اور پھلوں کی کمی کو ایک گن کر نواں معجزہ آپ کی لکڑی کا جادو گروں کے سانپوں کو کھا جانا بیان کیا ہے ۔ لیکن ان تمام معجزوں کے باوجود فرعونیوں نے تکبر کیا اور گنہگاری پر اڑے رہے باوجودیکہ دل یقین لا چکا تھا مگر ظلم وزیا دتی کر کے کفر انکار پر جم گئے ۔ 
اگلی آیتوں سے ان آیتوں کا ربط یہ ہے کہ جیسے آپ کی قوم آپ سے معجزے طلب کرتی ہے ایسے ہی فرعونیوں نے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے معجزے طلب کئے جو ظاہر ہوئے لیکن انہیں ایمان نصیب نہ ہوا آخرش ہلاک کر دئے گئے ۔ اسی طرح اگر آپ کی قوم بھی معجزوں کے آ جانے کے بعد کافر رہی تو پھر مہلت نہ ملے گی اور معا تباہ برباد کر دی جائے گی ۔ خود فرعون نے معجزے دیکھنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر کہہ کر اپنا پیچھا چھڑا لیا ۔ پس یہاں جن نو نشانیوں کا بیان ہے یہ وہی ہیں اور ان کا بیان والق عصاک سے قوما فاسقین تک میں ہے ان آیتوں کا بیان سورہ اعراف میں ہے ۔ ان کے علاوہ بھی اللہ تعالٰی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بہت سے معجزے دئیے تھے مثلا آپ کی لکڑی کے لگنے سے ایک پتھر میں سے بارہ چشموں کا جاری ہو جانا ، بادل کا سایہ کرنا ، من وسلوی کا اترنا وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سب نعمتیں بنی اسرائیل کو مصر کے شہر چھوڑنے کے بعد ملیں پس ان معجزوں کو یہاں اس لئے بیان نہیں فرمایا کہ وہ فرعونیوں نے دیکھے تھے اور انہیں جھٹلایا تھا ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا چل تو ذرا اس نبی سے ان کے قران کی اس آیت کے بارے میں پوچھ لیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وہ نو آیات کیا ملی تھیں ؟ دوسرے نے کہا نبی نہ کہہ ، سن لیا تو اس کی چار آنکھیں ہو جائیں گی ۔ اب دونوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا آپ نے فرمایا یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، چوری نہ کرو ، زنا نہ کرو ، کسی جان کو ناحق قتل نہ کرو، جادو نہ کرو ، سود نہ کھاؤ، بےگناہ لوگوں کو پکڑ کر بادشاہ کے دربار میں نہ لے جاؤ کہ اسے قتل کرا دو اور پاک دامن عورتوں پر بہتان نہ باندھو یا فرمایا جہاد سے نہ بھاگو ۔ اور اے یہودیو! تم پر خاص کر یہ حکم بھی تھا کہ ہفتے کے دن زیادتی نہ کرو۔ اب تو وہ بےساختہ آپ کے ہاتھ پاؤں چومنے لگے اور کہنے لگے ہماری گواہی ہے کہ آپ اللہ کی نبی ہیں ۔ آپ نے فرمایا پھر تم میری تابعداری کیوں نہیں کرتے ؟ کہنے لگے حضرت داؤد علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ میری نسل میں نبی ضرور رہیں اور ہمیں خوف ہے کہ آپ کی تابعداری کے بعد یہود ہمیں زندہ چھوڑیں گے ۔ ترمذی نسائی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اسے حسن صحیح بتلاتے ہیں لیکن ہے ذرا مشکل کام اس لئے کہ اس کے راوی عبداللہ بن سلمہ کے حافظ میں قدرے قصور ہے اور ان پر جرح بھی ہے ممکن ہے نو کلمات کا شبہ نو آیات سے انہیں ہو گیا ہو اس لئے کہ یہ توراۃ کے احکام ہیں فرعون پر حجت قائم کرنے والی یہ چیزں نہیں ۔ واللہ اعلم ۔ اسی لئے فرعون سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اے فرعون یہ تو تجھے بھی معلوم ہے کہ یہ سب معجزے سچے ہیں اور ان میں سے ایک ایک میری سچائی کی جیتی جاگتی دلیل ہے میرا خیال ہے کہ تو ہلاک ہونا چاہتا ہے اللہ کی لعنت تجھ پر اترا ہی چاہتی ہم تو مغلوب ہو گا اور تباہی کو پہنچے گا۔ مثبور کے معنی ہلاک ہونے کے اس شعر میں بھی ہیں 
اذا جار الشیطان فی سنن الغی ومن مال میلہ مثبور 
یعنی شیطان کے دوست ہلاک شدہ ہیں ۔ علمت کی دوسری قرأت علمت تے کے زبر کے بدلے تے کے پیش سے بھی ہے لیکن جمہور کی قرأت کے زبر سے ہی ہے ۔ اور اسی معنی کو وضاحت سے اسی آیت میں بیان فرماتا ہے (وجحدوا بہا واستیقنتہا انفسہم) الخ یعنی جب ان کے پاس ہماری ظاہر اور بصیرت افروز نشانیاں پہنچ چکیں تو وہ بولے کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے یہ کہہ کر منکرین انکار کر بیٹھے حالانکہ ان کے دلوں میں یقین آ چکا تھا لیکن صرف ظلم و زیادتی کی راہ سے نہ مانے الخ الغرض یہ صاف بات ہے کہ جن نو نشانیوں کا ذکر ہوا ہے یہ عصا ، ہاتھ ، قحط سالی ، پھلوں کی کم پیداواری ، ٹڈیاں ، جوئیں ، مینڈک ، اور دم (خون ) تھیں ۔ جو فرعون اور اس کی قوم کے لئے اللہ کی طرف سے دلیل برہان تھا اور آپ کے معجزے تھے جو آپ کی سچائی اور اللہ کے وجود پر دلائل تھے ان نو نشانیوں سے مراد احکام نہیں جو اوپر کی حدیث میں بیان ہوئے کیونکہ وہ فرعون اور فرعونیوں پر حجت ہونے اور ان احکام کے بیان ہونے کے درمیان کوئی مناسبت ہی نہیں۔ یہ وہم صرف عبداللہ بن سلمہ راوی حدیث کی وجہ سے لوگوں کو پیدا ہوا اس کی بعض باتییں واقعی قابل انکار ہیں ، واللہ اعلم ۔ 
بہت ممکن ہے کہ ان دونوں یہودیوں نے دس کلمات کا سوال کیا ہو اور راوی کو نو آیتوں کا وہم رہ گیا ہو ۔ فرعون نے ارادہ کیا کہ انہیں جلا وطن کر دیا جائے ۔ پس ہم نے خود اسے مچھلیوں کا لقمہ بنایا اور اس کے تمام ساتھیوں کو بھی ۔ اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے فرما دیا کہ اب زمین تمہاری ہے رہو سہو کھاؤ پیو ۔ اس آیت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی زبردست بشارت ہے کہ مکہ آپ کے ہاتھوں فتح ہو گا ۔ حالانکہ سورت مکی ہے ہجرت سے پہلے نازل ہوئی ۔ واقع میں ہوا بھی اسی طرح کہ اہل مکہ نے آپ کو مکہ شریف سے نکال دینا چاہا جیسے قرآن نے آیت (وان کا دوا لیستفزونک) الخ میں بیان فرمایا ہے پھر اللہ تعالٰی نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غالب کیا اور مکے کا مالک بنا دیا اور فاتحانہ حیثیت سے آپ بعد از جنگ مکے میں آئے اور یہاں اپنا قبضہ کیا اور پھر اپنے حلم و کرم سے کام لے کر مکے کے مجرموں کو اور اپنے جانی دشمنوں کو عام طور پر معافی عطا فرما دی ، صلی اللہ علیہ وسلم ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بنی اسرائیل جیسی ضعیف قوم کو مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا تھا اور فرعون جیسے سخت اور متکبر بادشاہ کے مال ، زمین ، پھل ، کھیتی اور خزانوں کا مالک کر دیا جیسے آیت (واورثناھا بنی اسرائیل) میں بیان ہوا ہے ۔ یہاں بھی فرماتا ہے کہ فرعون کی ہلاکت کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ اب تم یہاں رہو سہو قیامت کے وعدے کے دن تم اور تمہارے دشمن سب ہمارے سامنے اکٹھے لائے جاؤ گے ، ہم تم سب کو جمع کر لائیں گے ۔