الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجًا ۜ ﴿1﴾
‏ [جالندھری]‏ سب تعریف خدا ہی کو ہے جس نے اپنے بندے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) پر (یہ) کتاب نازل کی اور اس میں کسی طرح کی کجی اور پیچیدگی نہ رکھی۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
مستحق تعریف قرآن مجید 
ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ اللہ ہر امر کے شروع اور اس کے خاتمے پر اپنی تعریف و حمد کرتا ہے ہر حال میں وہ قابل حمد اور لائق ثنا اور سزاوار تعریف ہے اول آخر مستحق حمد فقط اسی کی ذات والا صفات ہم اس نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم نازل فرمایا جو اس کتاب کو ٹھیک ٹھاک اور سیدھا اور راست رکھا ہے جس میں کوئی کجی کوئی کسر کوئی کمی نہیں صراط مستقیم کی رہبر واضح جلی صاف اور واضح ہے ۔ بدکاروں کو ڈرانے والی ، نیک کاروں کو خوشخبریاں سنانے والی ، معتدل، سیدھی ، مخالفوں منکروں کو خوفناک عذابوں کی خبر دینے والی یہ کتاب ہے ۔ جو عذاب اللہ کی طرف کے ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ایسے عذاب کہ نہ اس کے سے عذاب کسی کے نہ اس کی سی پکڑ کسی کی ۔ ہاں جو اس پر یقین کرے ایمان لائے نیک عمل کرے اسے یہ کتاب اجر عظیم کی خوشی سناتی ہے ۔ جس ثواب کو پائندگی اور دوام ہے وہ جنت انہیں ملے گی جس میں کبھی فنا نہیں جس کی نعمتیں غیر فانی ہیں ۔ اور انہیں بھی یہ عذابوں سے آگاہ کرتا ہے جو اللہ کی اولاد ٹھیراتے ہیں جیسے مشرکین مکہ کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بتاتے تھے ۔ 
مشرکین کے سوالات 
بے علمی اور جہالت کے ساتھ منہ سے بول پڑتے ہیں یہ تو یہ ان کے بڑے بھی ایسی باتیں بےعلمی سے کہتے رہے کلمۃ کا نصب تمیز کی بنا پر ہے تقدیر عبارت اس طرح ہے کبرت کلمتہم ھذہ کلمۃ اور کہا گیا ہے کہ یہ تعجب کے طور پر ہے ۔ تقدیر عبارتیہ ہے اعظم بکلمتہم کلمۃ جیسے کہا جاتا ہے اکرم بزید رجلا بعض بصریوں کا یہی قول ہے ۔ مکہ کے بعض قاریوں نے اسے کلمتہ پڑھا جیسے ہے کہا جاتا ہے عظم قولک وکبر شانک جمہور کی قرأت پر تو معنی بالکل ظاہر ہیں کہ ان کے اس کلمے کی برائی اور اس کا نہایت ہی برا ہونا بیان ہو رہا ہے جو محض بےدلیل ہے صرف کذب و افترا ہے اسی لئے فرمایا کہ محض جھوٹ بکتے ہیں اس سورت کا شان نزول یہ بیان ہو گیا ہے کہ قریشیوں نے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابو محیط کو مدینے کے یہودی علماء کے پاس بھیجا کہ تم جا کر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بابت کل حالات ان سے بیان کرو ان کے پاس اگلے انبیاء کا علم ہے ان سے پوچھو ان کی بابت کیا رائے ہے ؟ یہ دونوں مدینے گئے احبار مدینہ سے ملے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات و اوصاف بیان کئے آپ کی تعلیم کا ذکر کیا اور کہا کہ تم ذی علم ہو بتاؤ ان کی نسبت کیا خیال ہے ؟ انہوں نے کہا دیکھو ہم تمہیں ایک فیصلہ کن بات بتاتے ہیں تم جا کر ان سے تین سوالات کرو اگر جواب دے دیں تو ان کے سچے ہونے میں کچھ شک نہیں بیشک وہ اللہ کے نبی اور رسول ہیں اور اگر جواب نہ دیں سکیں تو آپ کے جھوٹا ہونے میں بھی کوئی شک نہیں پھر جو تم چاہو کرو ۔ ان سے پوچھو اگلے زمانے میں جو نوجوان چلے گئے تھے ان کا واقعہ بیان کرو۔ وہ ایک عجیب واقعہ ہے ۔ اور اس شخص کے حالات دریافت کرو جس نے تمام زمین کا گشت لگایا تھا مشرق مغرب ہو آیا تھا ۔ اور روح کی ماہیت دریافت کرو اگر بتا دے تو اسے نبی مان کر اس کی اتباع کرو اور اگر نہ بتا سکے تو وہ شخص جھوٹا ہے جو چاہو کرو ۔ یہ دونوں وہاں سے واپس آئے اور قریشیوں سے کہا لو بھئی آخری اور انتہائی فیصلے کی بات انہوں نے بتا دی ہے ۔ اب چلو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کریں چنانچہ یہ سب آپ کے پاس آئے اور تینوں سوالات کئے ۔ آپ نے فرمایا تم کل آؤ میں تمہیں جواب دوں لیکن انشاء اللہ کہنا بھول گئے پندرہ دن گزر گئے نہ آپ پر وحی آئی نہ اللہ کی طرف سے ان باتوں کا جواب معلوم کرایا گیا اہل مکہ جوش میں آ گئے اور کہنے لگے کہ لیجئے صاحب کل کا وعدہ تھا آج پندرھواں دن ہے لیکن وہ بتا نہیں سکے ادھر آپ کو دوہرا غم ستانے لگا قریشیوں کو جواب نہ ملنے پر ان کی باتیں سننے کا اور وحی کے بند ہو جانے کا پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے سورہ کہف نازل ہوئی اسی میں انشاء اللہ نہ کہنے پر آپ کو ڈانٹا گیا ان نوجوانوں کا قصہ بیان کیا گیا اور اس سیاح کا ذکر کیا گیا اور آیت (ویسئلونک عن الروح) الخ میں روح کی بابت جواب دیا گیا ۔