وَتَحْسَبُهُمْ أَيْقَاظًا وَهُمْ رُقُودٌ ۚ وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ ۖ وَكَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيدِ ۚ لَوِ اطَّلَعْتَ عَلَيْهِمْ لَوَلَّيْتَ مِنْهُمْ فِرَارًا وَلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْبًا ﴿18﴾
‏ [جالندھری]‏ اور تم ان کو خیال کرو کہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ تو سوتے ہیں۔ اور ہم ان کو دائیں بائیں کروٹ بدلاتے تھے اور ان کا کتا چوکھٹ پر دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے تھا۔ اگر تم ان کو جھانک کر دیکھتے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے اور ان سے دہشت میں آجاتے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
ایک آنکھ بند ایک کھلی
یہ سو رہے ہیں لیکن دیکھنے والا انہیں بیدار سمجھتا ہے کیونکہ ان کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں ۔ مذکور ہے کہ بھیڑیا جب سوتا ہے تو ایک آنکھ بند رکھتا ہے ، ایک کھلی ہوتی ہے پھر اسے بند کر کے اسے کھول دیتا ہے چنانچہ کسی شاعر نے کہا ہے ۔ 
ینام باحدی مقلتیہ ویتقی 
باخری الرزایا فہو یقطان نائم 
جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں اور دشمنوں سے بچانے کے لئے تو اللہ نے نیند میں بھی ان کی آنکھیں کھلی رکھی ہیں اور زمین نہ کھا جائے ، کروٹیں گل نہ جائیں اس لئے اللہ تعالٰی انہیں کروٹیں بدلوا دیتا ہے ، کہتے ہیں سال بھر میں دو مرتبہ کروٹ بدلتے ہیں ۔ ان کا کتا بھی انگنائی میں دروازے کے پاس مٹی میں چوکھٹ کے قریب بطور پہر یدار کے بازو زمین پر ٹکاتے ہوئے بیٹھا ہوا ہے دروازے کے باہر اس لئے ہے کہ جس گھر میں کتا تصویر جنبی اور کافر شخص ہو اس گھر میں فرشتے نہیں جاتے ۔ جیسے کہ ایک حسن حدیث میں وارد ہوا ہے ۔ اس کتے کو بھی اسی حالت میں نیند آ گئی ہے ۔ سچ ہے بھلے لوگوں کی صحبت بھی بھلائی پیدا کرتی ہے دیکھئے نا اس کتے کی کتنی شان ہو گئی کہ کلام اللہ میں اس کا ذکر آیا ۔ کہتے ہیں کہ ان میں سے کسی کا یہ شکاری کتا پلا ہوا تھا ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ بادشاہ کے باورچی کا یہ کتا تھا ۔ چونکہ وہ بھی ان کے ہم مسلک تھے ۔ ان کے ساتھ ہجرت میں تھے ۔ ان کا کتا ان کے پیچھے لگ گیا تھا ۔ واللہ اعلم ۔ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں حضرت ذبیح اللہ کے بدلے جو مینڈھا ذبح ہوا اس کا نام جریر تھا ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو جس ہدہد نے ملکہ سبا کی خبر دی تھی اس کا نام عنفر تھا اور اصحاب کہف کے اس کتے کا نام قطیر تھا اور بنی اسرائیل نے جس بچھڑے کی پوجا شروع کی تھی اس کا نام مہموت تھا ۔ حضرت آدم علیہ السلام بہشت بریں سے ہند میں اترے تھے ، حضرت حواجدہ میں ابلیس دشت بیسان میں اور سانپ اصفہان میں ۔ ایک قول ہے کہ اس کتے کا نام حمران تھا ۔ نیز اس کتے کے رنگ میں بھی بہت سے اقوال ہیں ، لیکن ہمیں حیرت ہے کہ اس سے کیا نتیجہ ؟ کیا فائدہ ؟ کیا ضرورت ؟ بلکہ عجب نہیں کہ ایسی بحثیں ممنوع ہوں۔ اس لئے کہ یہ تو آنکھیں بند کر کے پتھر پھینکنا ہے بےدلیل زبان کھولنا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں وہ رعب دیا ہے کہ کوئی انہیں دیکھ ہی نہیں سکتا یہ اس لئے کہ لوگ ان کا تماشہ نہ بنا لیں کوئی جرات کر کے ان کے پاس نہ چلا جائے کوئی انہیں ہاتھ نہ لگا سکے وہ آرام اور چین سے جب تک حکمت الہی متقضی ہے باآرام سوتے رہیں ۔ جو انہیں دیکھتا ہے مارے رعب کے کلیجہ تھر تھرا جاتا ہے ۔ اسی وقت الٹے پیروں واپس لوٹتا ہے ، انہیں نظر بھر کر دیکھنا بھی ہر ایک کے لئے محال ہے ۔