وَاتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ ۖ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُونِهِ مُلْتَحَدًا ﴿27﴾
‏ [جالندھری]‏ اور اپنے پروردگار کی کتاب کو جو تمہارے پاس بھیجی جاتی ہے پڑھتے رہا کرو اسکی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں اور اس کے سوا تم کہیں پناہ کی جگہ بھی نہیں پاؤ گے ‏
تفسیر ابن كثیر
تلاوت و تبلیغ
اللہ کریم اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کلام کی تلاوت اور اس کی تبلیغ کی ہدایت کرتا ہے ، اس کے کلمات کو نہ کوئی بدل سکے نہ ٹال سکے ، نہ ادھر ادھر کر سکے ، سمجھ لے کہ اس کے سوائے جائے پناہ نہیں ، اگر تلاوت و تبلیغ چھوڑ دی تو پھر بچاؤ کی کوئی صورت نہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے کہ اے رسول جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے اترا ہے اس کی تبلیغ کرتا رہ اگر نہ کی تو تو نے حق رسالت ادا نہیں کیا لوگوں کے شر سے اللہ تجھے بچائے رکھے گا ۔ اور آیت میں ہے (ان الذی فرض) الخ یعنی اللہ تعالٰی تیرے منصب کی بابت قیامت کے دن ضرور سوال کرے گا ۔ اور آیت میں ہے (ولا تطرد الذین یدعون ربہم) الخ یعنی صبح شام یاد الہٰی کرنے والوں کو اپنی مجلس سے نہ ہٹا ۔ صحیح مسلم میں ہے کہ ہم چھ غریب غرباء حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے سعد بن ابی وقاص ، ابن مسعود ، قبیلہ ہذیل کا ایک شخص ، بلال اور دو آدمی اور اتنے میں معزز مشرکین آئے اور کہنے لگے انہیں اپنی مجلس میں اس جرات کے ساتھ نہ بیٹھنے دو ۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جی میں کیا آیا ؟ جو اس وقت آیت (ولا تطرد الذین) اتری ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک واعظ قصہ گوئی کر رہا تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے وہ خاموش ہو گئے تو آپ نے فرمایا تم بیان کئے چلے جاؤ ۔ میں تو صبح کی نماز سے لے کر آفتاب کے نکلنے تک اسی مجلس میں بیٹھا جاؤں ، یہ مجھے چار غلام آزاد کرنے سے زیادہ محبوب ہے ۔ ابو داؤد طیالسی میں ہے کہ ذکر اللہ کرنے والوں کے ساتھ صبح کی نماز سے سورج نکلنے تک بیٹھ جانا مجھے تو تمام دنیا سے زیادہ پیارا ہے ، اور نماز عصر کے بعد سے سورج کے غروب ہونے تک اللہ کا ذکر کرنا مجھے آٹھ غلاموں کے آزاد کرنے سے زیادہ پیارا ہے گو وہ غلام اولاد اسماعیل سے گراں قدر اور قیمتی کیوں نہ ہوں ، گو ان میں سے ایک ایک کی دیت بارہ بارہ ہزار کی ہو تو مجموعی قیمت چھیانوے ہزار کی ہوئی ۔ بعض لوگ چار غلام بتاتے ہیں لیکن حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں واللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ غلام فرمائے ہیں ۔ بزار میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آئے ایک صاحب سورہ کہف کی قرأت کر رہے تھے آپ کو دیکھ کر خاموش ہو گئے تو آپ نے فرمایا یہی ان لوگوں کی مجلس ہے ، جہاں اپنے نفس کو روک کر رکھنے کا مجھے حکم الہٰی ہوا ہے اور روایت میں ہے کہ یا تو سورہ حج کی وہ تلاوت کر رہے تھے یا سورہ کہف کی ۔ مسند احمد میں ہے فرماتے ہیں ذکر اللہ کے لئے جو مجلس جمع ہو نیت بھی ان کی بخیر ہو تو آسمان سے منادی ندا کرتا ہے کہ اٹھو اللہ نے تمہیں بخش دیا تمہاری برائیاں بھلائیوں سے بدل گئیں ۔ طبرانی میں ہے کہ جب یہ آیت اتری آپ اپنے کسی گھر میں تھے ، اسی وقت ایسے لوگوں کی تلاش میں نکلے ۔ کچھ لوگوں کو ذکر اللہ میں پایا ، جنکے بال بکھرے ہوئے تھے، کھالیں خشک تھیں ، بمشکل ایک ایک کپڑا انہیں حاصل تھا ، فورا ان کی مجلس میں بیٹھ گئے اور کہنے لگے اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میری امت میں ایسے لوگ رکھے ہیں ، جن کے ساتھ بیٹھنے کا مجھے حکم ہوا ہے ۔ پھر فرماتا ہے ان سے تیری آنکھیں تجاوز نہ کریں ، ان یاد اللہ کرنے والوں کو چھوڑ کر مالداروں کی تلاش میں نہ لگ جانا جو دین سے برگشتہ ہیں ، جو عبادت سے دور ہیں ، جن کی برائیاں بڑھ گئی ہیں ، جن کے اعمال حماقت کے ہیں تو ان کی پیروی نہ کرنا ان کے طریقے کو پسند نہ کرنا ان پر رشک بھری نگاہیں نہ ڈالنا ، ان کی نعمیتں للچائی ہوئی نظروں سے نہ دیکھنا ۔ جیسے فرمان ہے آیت (ولا تمدن عینیک) الخ ، ہم نے انہیں جو دنیوی عیش و عشرت دے رکھی ہے یہ صرف ان کی آزمائش کے لئے ہے ۔ تو للچائی ہوئی نگاہوں سے انہیں نہ دیکھنا ، دراصل تیرے رب کے پاس کی روزی بہتر اور بہت باقی ہے ۔