وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا رَجُلَيْنِ جَعَلْنَا لِأَحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ أَعْنَابٍ وَحَفَفْنَاهُمَا بِنَخْلٍ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعًا ﴿32﴾
‏ [جالندھری]‏ اور ان سے دو شخصوں کا حال بیان کرو جن میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ (عنایت) کیے تھے اور ان کے گردا گرد کھجوروں کے درخت لگا دیئے تھے اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کر دی تھی ‏
تفسیر ابن كثیر
فخر و غرور
چونکہ اوپر مسکین مسلمانوں اور مالدار کافروں کا ذکر ہوا تھا یہاں ان کی ایک مثال بیان کی جاتی ہے کہ دو شخص تھے جن میں سے ایک مالدار تھا ، انگوروں کے باغ ، اردگرد کھجوروں کے درخت ، درمیان میں کھیتی ، درخت پھلدار ، بیلیں ہری، کھیتی سرسبز ، پھل پھول بھر پور ، کسی قسم کا نقصان نہیں ادھر ادھر نہریں جاری تھیں ۔ اس کے پاس ہر وقت طرح طرح کی پیداوار موجود ، مالدار شخص ۔ اس کی دوسری قرأت ثمر بھی ہے یہ جمع ہے ثمرۃ کی جیسے خشبہ کی جمع خشب ۔ الغرض اس نے ایک دن اپنے ایک دوست سے فخر و غرور کرتے ہوئے کہ میں مال میں ، عزت و اولاد میں ، جاہ و حشم میں ، نوکر چاکر میں ، تجھ سے زیادہ حیثیت والا ہوں ایک فاجر شخص کی تمنا یہی ہوتی ہے کہ دنیا کی یہ چیزیں اس کے پاس بکثرت ہوں ۔ یہ اپنے باغ میں گیا اپنی جان پر ظلم کرتا ہوا یعنی تکبر اکڑ انکار قیامت اور کفر کرتا ہوا ۔ اس قدر مست تھا کہ اس کی زبان سے نکلا کہ ناممکن ہے میری یہ لہلہاتی کھیتیاں ، یہ پھلدار درخت ، یہ جاری نہریں ، یہ سرسبز بیلیں ، کبھی فنا ہو جائیں ۔ حقیقت میں یہ اس کی کم عقلی بے ایمانی اور دنیا کی خر مستی اور اللہ کے ساتھ کفر کی وجہ تھی۔ اسی لئے کہہ رہا ہے کہ میرے خیال سے تو قیامت آنے والی نہیں ۔ اور اگر بالفرض آئی تھی تو ظاہر ہے کہ اللہ کا میں پیارا ہوں ورنہ وہ مجھے اس قدر مال و متاع کیسے دے دیتا ؟ تو وہاں بھی وہ مجھے اس سے بھی بہتر عطا فرمائے گا ۔ جیسے اور آیت میں ہے (ولئن رجعت الی ربی ان لی عندہ للحسنی) اگر میں لوٹایا گیا تو وہاں میرے لئے اور اچھائی ہو گئی ۔ اور آیت میں ارشاد ہے (افرایت الذی کفر بایاتنا وقال لاوتین مالا و ولدا) یعنی تو نے اسے بھی دیکھا جو تو کر رہا ہے ہماری آیتوں سے کفر اور باوجود اس کے اس کی تمنا یہ ہے کہ مجھے قیامت کے دن بہی بکثرت مال و اولاد ملے گی ، یہ اللہ کے سامنے دلیری کرتا ہے اور اللہ پر باتیں بناتا ہے اس آیت کا شان نزول عاص بن وائل ہے جیسے کہ اپنے موقعہ پر آئے گا انشاء اللہ ۔