وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَنْ يُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَى وَيَسْتَغْفِرُوا رَبَّهُمْ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمْ سُنَّةُ الْأَوَّلِينَ أَوْ يَأْتِيَهُمُ الْعَذَابُ قُبُلًا ﴿55﴾
‏ [جالندھری]‏ اور لوگوں کے پاس جب ہدایت آ گئی تو ان کو کس چیز نے منع کیا کہ ایمان لائیں اور اپنے پروردگار سے بخشش مانگیں بجز اس کے کہ (اس بات کے منتظر ہوں کہ) انہیں بھی پہلوں کا سا معاملہ پیش آئے یا ان پر عذاب سامنے آموجود ہو ‏
تفسیر ابن كثیر
عذاب الہٰی کے منتظر کفار
اگلے زمانے کے اور اس وقت کے کافروں کی سرکشی بیان ہو رہی ہے کہ حق واضح ہو چکنے کے بعد بھی اسکی تابعداری سے رکے رہتے ہیں ۔ چاہتے ہیں کہ اللہ کے عذابوں کو اپنے آنکھوں دیکھ لیں کسی نے تمنا کی کہ آسمان ہم پر گر پڑے کسی نے کہا کہ لا جو عذاب لا سکتا ہے لے آ ۔ قریش نے بھی کہا اے اللہ اگر یہ حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسایا کوئی اور درد ناک عذاب ہمیں کر ۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اے نبی ہم تو تجھے مجنوں جانتے ہیں اور اگر فی الواقع تو سچا نبی ہے تو ہمارے سامنے فرشتے کیوں نہیں لاتا ؟ وغیرہ وغیرہ پس عذاب الہٰی کے انتظار میں رہتے ہیں اور اس کے معائنہ کے درپے رہتے ہیں ۔ رسولوں کا کام تو صرف مومنوں کو بشارتیں دینا اور کافروں کو ڈرا دینا ہے ۔ کافر لوگ نا حق کی حجتیں کر کے حق کو اپنی جگہ سے پھسلا دینا چاہتے ہیں لیکن ان کی یہ چاہت کبھی پوری نہیں ہو گی حق ان کی باطل باتوں سے دبنے والا نہیں ۔ یہ میری آیتوں اور ڈراوے کی باتوں کو خالی مذاق سمجھ رہے ہیں اور اپنی بے ایمانی میں بڑھ رہے ہیں ۔