قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا ﴿75﴾
‏ [جالندھری]‏ (خضر) نے کہا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے؟ ‏
تفسیر ابن كثیر
موسیٰ علیہ السلام کی بےصبری ۔
حضرت خضرعلیہ السلام نے اس دوسری مرتبہ اور زیادہ تاکید سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان کی منظور کی ہوئی شرط کے خلاف کرنے پر تنبیہہ فرمائی ۔ اسی لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اس بار اور ہی راہ اختیار کی اور فرمانے لگے اچھا اب کی دفعہ اور جانے دو اب اگر میں آپ پر اعتراض کروں تو مجھے آپ اپنے ساتھ نہ رہنے دینا ، یقینا آپ بار بار مجھے متنبہ فرماتے رہے اور اپنی طرف سے آپ نے کوئی کمی نہیں کی اب اگر قصور کروں تو سزا پاؤں ۔ ابن جریر میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ جب کوئی یاد آجاتا اور اس کے لئے آپ دعا کرتے تو پہلے اپنے لئے کرتے ۔ ایک روز فرمانے لگے ہم پر اللہ کی رحمت ہو اور موسیٰ پر کاش کہ وہ اپنے ساتھی کے ساتھ اور بھی ٹھہرتے اور صبر کرتے تو اور یعنی بہت سی تعجب خیز باتیں معلوم ہوتیں ۔ لیکن انہوں نے تو یہ کہہ کر چھٹی لے لی کہ اب اگر پوچھوں تو ساتھ چھوٹ جائے ۔ میں اب زیادہ تکلیف میں آپ کو ڈالنا نہیں چاہتا ۔