وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنْزٌ لَهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَنْ يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ ۚ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ۚ ذَلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا ﴿82﴾
‏ [جالندھری]‏ اور وہ جو دیوار تھی دو یتیم لڑکوں کی تھی جو شہر میں (رہتے تھے) اور اس کے نیچے ان کا خزانہ مدفون تھا، اور ان کا باپ ایک نیک بخت آدمی تھا تو تمہارے پروردگار نے چاہا کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور (پھر) اپناخزانہ نکالیں یہ تمہارے پروردگار کی مہربانی ہے اور یہ کام میں نے اپنی طرف سے نہیں کیے یہ ان باتوں کی حقیقت ہے جن پر تم صبر نہ کر سکے ‏
تفسیر ابن كثیر
اللہ کی حفاظت کا ایک انداز ۔
اس آیت سے ثابت ہوا کہ بڑے شہر پر بھی قریہ کا اطلاق ہو سکتا ہے کیونکہ پہلے (حتی اذا اتیا اہل قریۃ) فرمایا تھا اور یہاں فی المدینۃ فرمایا ۔ اسی طرح مکہ شریف کو بھی قریہ کہا گیا ہے۔ فرمان ہے (فکاین من قریۃ ہی اشد قوۃ من قریتک اللتی اخرجتک) الخ اور آیت میں مکہ اور طائف دونوں شہروں کو قریہ فرمایا گیا ہے چنانچہ ارشاد ہے (وقالوا لولا نزل ہذا القران علی رجل من القریتین عظیم) آیت میں بیان ہو رہا ہے کہ اس دیوار کو درست کردینے میں مصلحت الہٰی یہ تھی کہ یہ اس شہر کے دو یتیموں کی تھی اس کے نیچے انکا مال دفن تھا ۔ ٹھیک تفسیر تو یہی ہے گویہ بھی مروی ہے کہ وہ علمی خزانہ تھا ۔ بلکہ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ جس خزانے کا ذکر کتاب اللہ میں ہے یہ خالص سونے کی تختیاں تھیں جن پر لکھا ہوا تھا کہ تعجب ہے اس شخص پر جو تقدیر کا قائل ہو تے ہوئے اپنی جان کو محنت ومشقت میں ڈال رہا ہے اور رنج وغم برداشت کر رہا ہے ۔ تعجب ہے کہ جو جہنم کے عذابوں کا ماننے والا ہے پھر بھی ہنسی کھیل میں مشغول ہے ۔ تعجب ہے کہ موت کا یقین رکھتے ہوئے غفلت میں پڑا ہوا ہے ۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔ یہ عبارت ان تختیوں پر لکھی ہوئی تھی لیکن اس میں ایک راوی بشر بن منذر ہیں ۔ کہا گیا ہے کہ یہ مصیصہ کے قاضی تھے ان کی حدیث میں وہم ہے۔ سلف سے بھی اس بارے میں بعض آثار مروی ہیں ۔ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ سونے کی تختی تھی جس میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد قریب قریب مندرجہ بالا نصحیتں اور آخر میں کلمہ طیبہ تھا ۔ عمر مولیٰ غفرہ سے بھی تقریبا یہی مروی ہے ۔ امام جعفر بن محمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس میں ڈھائی سطریں تھیں پوری تین نہ تھیں ، الخ ۔ مذکور ہے کہ یہ دونوں یتیم بوجہ اپنے ساتویں دادا کی نیکیوں کے محفوظ رکھے گئے تھے ۔ جن بزرگوں نے یہ تفسیر کی ہے وہ بھی پہلی تفسیر کے خلاف نہیں کیونکہ اس میں بھی ہے کہ یہ علمی باتیں سونے کی تختی پر لکھی ہوئی تھیں اور ظاہر ہے کہ سونے کی تختی خود مال ہے اور بہت بڑی رقم کی چیز ہے۔ واللہ اعلم ۔ اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی نیکیوں کی وجہ سے اس کے بال بچے بھی دنیا اور آخرت میں اللہ کی مہربانی حاصل کرلیتے ہیں ۔ جیسے قرآن میں صراحتا مذکور ہے دیکھئے آیت میں ان کی کوئی صلاحیت بیان نہیں ہوئی ہاں ان کے والد کی نیک بختی اور نیکی عملا بیان ہوئی ہے ۔ اور پہلے گزر چکا ہے یہ باپ جس کی نیکی کی وجہ سے ان کی حفاظت ہوئی یہ ان بچوں کا ساتواں دادا تھا واللہ اعلم ۔ آیت میں ہے تیرے رب نے چاہا ، یہ اسناد اللہ کی طرف اس لئے کی گئی ہے کہ جوانی تک پہنچانے پر بجز اس کے اور کوئی قادر نہیں ۔ دیکھئے بچے کی بارے میں اور کشتی کے بارے میں ارادے کی نسبت اپنی طرف کی گئی ہے فاردنا اور فاردت کے لفظ ہیں واللہ اعلم ۔ پھر فرماتے ہیں کہ دراصل یہ تینوں باتیں جنہیں تم نے خطرناک سمجھیں سراسر رحمت تھیں ۔ کشتی والوں کو گو قدرے نقصان ہوا لیکن اس سے پوری کشتی بچ گئی ۔ بچے کے مرنے کی وجہ سے گو ماں باپ کو رنج ہوا لیکن ہمیشہ کے رنج اور عذاب الہٰی سے بچ گئے اور پھر نیک بدلہ ہاتھوں ہاتھ مل گیا ۔ اور یہاں اس نیک شخص کی اولاد کا بھلا ہوا ۔ یہ کام میں نے اپنی خوشی نہیں کئے بلکہ احکام الہٰی بجا لایا ۔ اس سے بعض لوگوں نے حضرت خضر کی نبوت پر استدلال کیا ہے اور پوری بحث پہلے گزر چکی ہے اور لوگ کہتے ہیں یہ رسول تھے ۔ ایک قول ہے کہ یہ فرشتے تھے لیکن اکثر بزرگوں کا فرمان ہے کہ یہ ولی اللہ تھے ۔ امام ابن قتیبہ نے معارف میں لکھا ہے کہ ان کا نام بلیا بن ملکان بن خالغ بن عاجر بن شانح بن ارفحشد بن سام بن نوح علیہ السلام تھا۔ ان کی کنیت ابو العباس ہے ، لقب خضر ہے ۔ امام نو وی رحمۃ اللہ علیہ نے تہذیب الاسماء میں لکھا ہے کہ یہ شہزادے تھے ۔ یہ اور ابن صلاح تو قائل ہیں کہ وہ اب تک زندہ ہیں اور قیامت تک زندہ رہیں گے ۔ گو بعض احادیث میں بھی یہ ذکر آیا ہے لیکن ان میں سے ایک بھی صحیح نہیں سب سے زیادہ مشہور حدیث اس بارے میں وہ ہے جس میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعزیت کے لئے آپ تشریف لائے تھے لیکن اس کی سند بھی ضعیف ہے ۔ اکثر محدثین وغیرہ اس کے برخلاف ہیں اور وہ حیات خضر کے قائل نہیں ۔ ان کی ایک دلیل آیت قرآنی ہے (وما جعلنا لبشر من قبلک الخلد) ہے یعنی تجھ سے پہلے بھی ہم نے کسی کو ہمیشہ کی زندگی نہیں دی ۔ اور دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غزوہ بدر میں یہ فرمانا ہے کہ الہٰی اگر میری جماعت ہلاک ہوگئی تو زمین میں تیری عبادت پھر نہ کی جائے گی ۔ ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر حضرت خضر رحمۃاللہ علیہ زندہ ہوتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام جن وانس کی طرف اللہ کے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے ۔ آپ نے تو یہاں تک فرمایا کہ اگر موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام زندہ (زمین پر) ہوتے تو انہیں بھی بجز میری تابعداری کے چارہ نہ تھا۔ آپ اپنی وفات سے کچھ دن پہلے فرماتے ہیں کہ آج جو زمین پر ہیں ان میں سے ایک بھی آج سے لے کر سو سال تک باقی نہیں رہے گا ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے دلائل ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت خضر کو خضر اس لئے کہا گیا کہ وہ سفید رنگ سوکھی گھاس پر بیٹھ گئے تھے یہاں تک کہ اس کے نیچے سبزہ اگ آیا ۔ اور ممکن ہے کہ اس سے مرادیہ ہو کہ آپ خشک زمین پر بیٹھ گئے تھے اور پھر وہ لہلہانے لگی ۔ الغرض حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے جب یہ گھتی سلجھا دی اور ان کاموں کی اصل حکمت بیان کر دی تو فرمایا کہ یہ تھے وہ راز جن کے آشکارا کرنے کے لئے آپ جلدی کر رہے تھے ۔ چونکہ پہلے شوق ومشقت زیادہ تھی اس لئے لفظ لم تستطع کہا اور اب بیان کر دینے کے بعد وہ بات نہ رہی اس لئے لفظ لم تسطع کہا ۔ یہی صفت آیت (فلما استطاعوا ان یظہرو ہ وما استطاعوا لہ نقبا) میں ہے یعنی یاجوج ماجوج نہ اس دیوار پر چڑھ سکے اور نہ اس میں کوئی سوراخ کر سکے ۔ پس چڑھنے میں تکلیف بہ نسبت سوراخ کرنے کے کم ہے اس لئے ثقیل کا مقابلہ ثقیل سے اور خفیف کا مقابلہ خفیف سے کیا گیا اور لفظی اور معنوی مناسبت قائم کر دی ۔ واللہ اعلم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کا ذکر ابتداء قصہ میں تو تھا لیکن پھر نہیں اس لئے کہ مقصود صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل کے والی بنائے گئے تھے ۔ ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے آب حیات پی لیا تھا اس لئے انہیں کشتی میں بٹھا کر بیچ سمندر کے چھوڑ دیا وہ کشتی یونہی ہمیشہ تک موجوں کے تلاطم میں رہے گی ۔ یہ بالکل ضعیف ہے کیونکہ اس واقعہ کے راویوں میں ایک میں تو حسن ہے جو متروک ہے دوسرا اس کا باپ ہے جو غیر معروف ہے ۔ یہ واقعہ سندا ٹھیک ہے ۔