وَيَسْأَلُونَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ ۖ قُلْ سَأَتْلُو عَلَيْكُمْ مِنْهُ ذِكْرًا ﴿83﴾
‏ [جالندھری]‏ اور تم سے ذوالقرنین کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہہ دو کہ میں اس کا کسی قدر حال تمہیں پڑھ کر سناتا ہوں ‏
تفسیر ابن كثیر
کفار کے سوالات کے جوابات ۔
پہلے گزر چکا ہے کہ کفار مکہ نے اہل کتاب سے کہلوایا تھا کہ ہمیں کچھ ایسی باتیں بتلاؤ جو ہم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے دریافت کریں اور ان کے جواب آپ سے نہ بن پڑیں ۔ تو انہوں نے سکھایا تھا کہ ایک تو ان سے اس شخص کا واقعہ پوچھو جس نے روئے زمین کی سیاحت کی تھی ۔ دوسرا سوال ان سے ان نوجوانوں کی بہ نسبت کرو جو بالکل لا پتہ ہوگئے ہیں اور تیسرا سوال ان سے روح کی بابت کرو ۔ ان کے ان سوالوں کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی ۔ یہ بھی روایت ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ذوالقرنین کا قصہ دریافت کرنے کو آئی تھی ۔ تو آپ نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا کہ تم اس لئے آئے ہو ۔ پھر آپ نے وہ واقعہ بیان فرمایا ۔ اس میں ہے کہ وہ ایک رومی نوجوان تھا اسی نے اسکندریہ بنایا ۔ اسے ایک فرشتہ آسمان تک چڑھالے گیا تھا اور دیوار تک لے گیا تھا اس نے کچھ لوگوں کو دیکھا جن کے منہ کتوں جیسے تھے وغیرہ ۔ لیکن اس میں بہت طول ہے اور بےکار ہے اور ضعف ہے اس کا مرفوع ہونا ثابت نہیں ۔ دراصل یہ بنی اسرائیل کی روایات ہیں ۔ تعجب ہے کہ امام ابو زرعہ رازی جیسے علامہ زماں نے اسے اپنی کتاب دلائل نبوت میں مکمل وارد کیا ہے ۔ فی الواقع یہ ان جیسے بزرگ سے تو تعجب خیز چیز ہی ہے ۔ اس میں جو ہے کہ یہ رومی تھا یہ بھی ٹھیک نہیں ۔ اسکندر ثانی البتہ رومی تھا وہ قیلیس مفذونی کا لڑکا ہے جس سے روم کی تاریخ شروع ہوتی ہے اور سکندر اول تو بقول ازرقی وغیرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں تھا ۔ اس نے آپ کے ساتھ بیت اللہ شریف کی بنا کے بعد طواف بیت اللہ کیا ہے ۔ آپ پر ایمان لایا تھا ، آپ کا تابعدار بنا تھا ۔ انہی کے وزیر حضرت خضر علیہ السلام تھے ۔ اور سکندر ثانی کا وزیر ارسطاطالیس مشہور فلسفی تھا واللہ اعلم ۔ اسی نے مملکت روم کی تاریخ لکھی یہ حضرت میسح علیہ السلام سے تقریبا تین سو سال پہلے تھا اور سکندر اول جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے یہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے زمانے میں تھا جیسے کہ ازرقی وغیرہ نے ذکر کیا ہے ۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ بنایا تو اس نے آپ کے ساتھ طواف کیا تھا اور اللہ کے نام بہت سی قربانیاں کی تھیں ۔ ہم نے اللہ کے فضل سے ان کے بہت سے واقعات اپنی کتاب البدایہ والنہایہ میں ذکر کر دیے ہیں ۔ وہب کہتے ہیں یہ بادشاہ تھے چونکہ ان کے سر کے دونوں طرف تانبا رہتا تھا اس لئے انہیں ذوالقرنین کہا گیا یہ وجہ بھی بتلائی گئی ہے کہ یہ روم کا اور فارس کا دونوں کا بادشاہ تھا ۔ بعض کا قول ہے کہ فی الواقع اس کے سر کے دونوں طرف کچھ سنیگ سے تھے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں اس نام کی وجہ یہ ہے کہ یہ اللہ کے نیک بندے تھے اپنی قوم کو اللہ کی طرف بلایایہ لوگ مخالف ہوگئے اور ان کے سر کے ایک جانب اس قدر مارا کہ یہ شہید ہوگئے ۔ اللہ تعالٰی نے انہیں دوبارہ زندہ کر دیا قوم نے پھر سر کے دوسری طرف اسی قدر مارا جس سے یہ پھر مر گئے اس لئے انہیں ذوالقرنین کہا جاتا ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ چونکہ یہ مشرق سے مغرب کی طرف سیاحت کر آئے تھے اس لیے انہیں ذوالقرنین کہا گیا ہے ۔ ہم نے اسے بڑی سلطنت دے رکھی تھی ۔ ساتھ ہی قوت لشکر آلات حرب سب کچھ ہی دے رکھا تھا ۔ مشرق سے مغرب تک اس کی سلطنت تھی عرب عجم سب اس کے ماتحت تھے ۔ ہرچیز کا اسے علم دے رکھا تھا ۔ زمین کے ادنی اعلیٰ نشانات بتلا دیے تھے ۔ تمام زبانیں جانتے تھے ۔ جس قوم سے لڑائی ہوتی اس کی زبان بول لیتے تھے ایک مرتبہ حضرت کعب احبار رحمۃ اللہ علیہ سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا تھا کیا تم کہتے ہو کہ ذوالقرنین نے اپنے گھوڑے ثریا سے باندھے تھے ۔ انہوں نے جواب دیا کہ اگر آپ یہ فرماتے ہیں تو سنئے اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے ہم نے اسے ہرچیز کا سامان دیا تھا ۔ حقیقت میں اس بات میں حق حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ ہے اس لئے بھی کہ حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ کو جو کچھ کہیں لکھا ملتا تھا روایت کر دیا کرتے تھے گو وہ جھوٹ ہی ہو ۔ اسی لئے آپ نے فرمایا ہے کہ کعب کا کذب تو با رہا سامنے آچکا ہے یعنی خود تو جھوٹ نہیں گھڑتے تھے لیکن جو روایت ملتی گو بےسند ہو بیان کرنے سے نہ چوکتے ۔ اور یہ ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل کی روایات جھوٹ ، خرافات ، تحریف ، تبدیلی سے محفوظ نہ تھیں ۔ بات یہ ہے کہ ہمیں ان اسرائیلی روایت کی طرف التفات کرنے کی بھی کیا ضرورت ؟ جب کہ ہمارے ہاتھوں میں اللہ کی کتاب اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اور صحیح احادیث موجود ہیں ۔ افسوس انہیں بنی اسرائیلی روایات نے بہت سی برائی مسلمانوں میں ڈال دی اور فساد پھیل گیا ۔ حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ نے اس بنی اسرائیل کی روایت کے ثبوت میں قرآن کی اس آیت کا آخری حصہ جو پیش کیا ہے یہ بھی کچھ ٹھیک نہیں کیونکہ یہ تو بالکل ظاہربات ہے کہ کسی انسان کو اللہ تعالٰی نے آسمانوں پر اور ثریا پر پہنچنے کی طاقت نہی دی ۔ دیکھئے بلقیس کے حق میں بھی قرآن نے یہی الفاظ کہے ہیں (واتیت من کل شئی) وہ ہرچیز دی گئی تھی اس سے بھی مراد صرف اسی قدر ہے کہ بادشاہوں کے ہاں عموما جو ہوتا ہے وہ سب اس کے پاس بھی تھا اسی طرح حضرت ذوالقرنین کو اللہ نے تمام راستے اور ذرائع مہیا کر دیے تھے کہ وہ اپنی فتوحات کو وسعت دیتے جائیں اور زمین سرکشوں اور کافروں سے خالی کراتے جائیں اور اس کی توحید کے ساتھ موحدین کی بادشاہت دنیا پر پھیلائیں اور اللہ والوں کی حکومت جمائیں ان کاموں میں جن اسباب کی ضرورت پڑتی ہے وہ سب رب عزوجل نے حضرت ذوالقرنین کو دے رکھے تھے واللہ اعلم ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ مشرق ومغرب تک کیسے پہنچ گئے ؟ آپ نے فرمایا سبحان اللہ ۔ اللہ تعالٰی نے بادلوں کو ان کے لئے مسخر کر دیا تھا اور تمام اسباب انہیں مہیا کر دیے تھے اور پوری قوت وطاقت دے دی تھی ۔