كهيعص ﴿1﴾
‏ [جالندھری]‏ کھیعص ‏
تفسیر ابن كثیر
دعا اور قبولیت ۔
اس سورت کے شروع میں جو پانچ حروف ہیں انہیں حروف مقطعہ کہا جاتا ہے ان کا تفصیلی بیان ہم سورہ بقرہ کی تفسیر کے شروع میں کر چکے ہیں ۔ اللہ کے بندے حضرت زکریا نبی علیہ السلام پر جو لطف الہٰی نازل ہوا اس کا واقعہ بیان ہو رہا ہے ۔ ایک قرأت ہے ۔ یہ لفظ مد سے بھی ہے اور قصر سے بھی ۔ دونوں قرأتیں مشہور ہیں ۔ آپ بنو اسرائیل کے زبر دست رسول تھے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے آپ بڑھئی کا پیشہ کر کے اپنا پیٹ پالتے تھے ۔ رب سے دعا کرتے ہیں لیکن اس وجہ سے کہ لوگوں کے نزدیک یہ انوکھی دعا تھی کوئی سنتا تو خیال کرتا کہ لو بڑھاپے میں اولاد کی چاہت ہوئی ہے ۔ اور یہ وجہ بھی تھی کہ پوشیدہ دعا اللہ کو زیادہ پیاری ہوتی ہے اور قبولیت سے زیادہ قریب ہوتی ہے ۔ اللہ تعالٰی متقی دل کو بخوبی جانتا ہے اور آہستگی کی آواز کو پوری طرح سنتا ہے ۔ بعض سلف کا قول ہے کہ جو شخص اپنے والوں کی پوری نیند کے وقت اٹھے اور پوشیدگی سے اللہ کو پکارے کہ اے میرے پروردگار اے میرے پالنہار اے میرے رب اللہ تعالٰی اسی وقت جواب دیتا ہے کہ لبیک میں موجود ہوں میں تیرے پاس ہوں ۔ دعا میں کہتے ہیں کہ اے اللہ تعالٰی اسی وقت جواب دیتا ہے کہ لبیک میں موجود ہوں میں تیرے پاس ہوں ۔ دعا میں کہتے ہیں کہ اے اللہ میرے قوی کمزور ہوگئے ہیں میری ہڈیاں کھوکھلی ہوچکی ہیں میرے سر کے بالوں کی سیاہی اب تو سفیدی سے بدل گئی ہے یعنی ظاہری اور پوشیدگی کی تمام طاقتیں زائل ہوگئی ہیں اندرونی اور بیرونی ضعف نے گھیر لیا ہے ۔ میں تیرے دروازے سے کبھی خالی ہاتھ نہیں گیا تجھ کریم سے جو مانگا تو نے عطا فرمایا ۔ موالی کو کسائی نے موالی پڑھا ہے۔ مراد اس سے عصبہ ہیں ۔ امیرا لمومنین حضرت عثمان بن عفان سے خفت کو خفت پڑھنا مروی ہے یعنی میرے بعد میرے والے بہت کم ہیں ۔ پہلی قرأت پر مطلب یہ ہے کہ چونکہ میری اولاد نہیں اور جو میرے رشتے دار ہیں ان سے خوف ہے کہ مبادہ یہ کہیں میرے بعد کوئی برا تصرف نہ کردیں تو تو مجھے اولاد عنایت فرماجو میرے بعد میری نبوت سنبھالے ۔ یہ ہرگز نہ سمجھا جائے کہ آپ کو اپنے مال املاک کے ادھر ادھر ہو جانے کا خوف تھا۔ انبیاء علیہم السلام اس سے بہت پاک ہیں ۔ ان کا مرتبہ اس سے بہت سوا ہے کہ وہ اس لئے اولاد مانگیں کہ اگر اولاد نہ ہوئی تو میرا ورثہ دور کے رشتے داروں میں چلا جائے گا ۔ دوسرے بہ ظاہر یہ بھی ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام جو عمر بھر اپنی ہڈیاں پیل کر بڑھئی کا کام کر کے اپنا پیٹ اپنے ہاتھ کے کام سے پالتے رہے ان کے پاس ایسی کون سی بڑی رقم تھی کہ جس کے ورثے کے لئے اس قدر پس وپیش ہوتا کہ کہیں یہ دولت ہاتھ سے نکل نہ جائے ۔ انبیاء علہم السلام تو یوں بھی ساری دنیا سے زیادہ مال سے بےرغبت اور دنیا کے زاہد ہوتے ہیں ۔ تیسری وجہ یہ بھی ہے کہ بخاری ومسلم میں کئی سندوں سے حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہمارا ورثہ تقسیم نہیں ہوتا جو کچھ ہم چھوڑیں سب صدقہ ہے ۔ ترمذی میں صحیح سند سے مروی ہے کہ ہم اس سے مطلب ورثہ نبوت ہے نہ کہ مالی ورثہ ۔ اسی لئے آپ نے یہ بھی فرمایا کہ وہ میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو ۔ جیسے فرمان ہے کہ( وورث سلیمان داود ) سلیمان داؤد علیہ السلام کے وارث ہوئے ۔ یعنی نبوت کے وراث ہوئے ۔ نہ کہ مال کے ورنہ مال میں اور اولاد بھی شریک ہوتی ہے ۔ تخصیص نہیں ہوتی ۔ چوتھی وجہ یہ بھی ہے اور یہ بھی معقول وجہ ہے کہ اولاد کا وارث ہونا تو عام ہے ، سب میں ہے تمام مذہبوں میں ہے پھر کوئی ضرورت نہ تھی کہ حضرت زکریا اپنی دعا میں یہ وجہ بیان فرماتے اس سے صاف ثابت ہے کہ وہ ورثہ کوئی خالص ورثہ تھا اور وہ نبوت کا وارث بننا تھا ۔ پس ان تمام وجوہ سے ثابت ہے کہ اس سے مراد ورثہ نبوت ہے ۔ جیسے کہ حدیث میں ہے ہم جماعت انبیاء کا ورثہ نہیں بٹتا ہم جو چھوڑ جائیں صدقہ ہے ۔ مجاہد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں مراد ورثہ علم ہے ۔ حضرت زکریا علیہ السلام اولاد یعقوب علیہ السلام میں تھے ۔ ابو صالح رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ وہ بھی اپنے بڑوں کی طرح نبی ہے ۔ حسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں نبوت اور علم کا وارث بنے ۔ سدی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے میری اور آل یعقوب علیہ السلام کی نبوت کا وہ وراث ہو ۔ زید بن اسلم بھی یہی فرماتے ہیں ابو صالح کا قول یہ بھی ہے کہ میرے مال کا اور خاندان حضرت یعقوب علیہ السلام کی نبوت کا وہ وارث ہو ۔ عبد الرزاق میں حدیث ہے کہ اللہ تعالٰی زکریا علیہ السلام پر رحم کرے بھلا انہیں وراثت مال سے کیا غرض تھی ؟ اللہ تعالٰی لوط علیہ السلام پر رحم کرے وہ کسی مضبوط قلعے کی تمنا کرنے لگے ۔ ابن جریر میں ہے کہ آپ نے فرمایا میرے بھائی زکریا پر اللہ کا رحم ہو کہنے لگے اے اللہ مجھے اپنے پاس سے والی عطا فرما جو میرا اور آل یقوب کا وارث بنے لیکن یہ سب حدیثیں مرسل ہیں جو صحیح احادیث کامعارضہ نہیں کر سکتیں واللہ اعلم ۔ اور اے اللہ اسے اپنا پسندیدہ غلام بنالے اور ایسا دین دار دیانتدار بنا کہ تیری محبت کے علاوہ تمام مخلوق بھی اس سے محبت کرے اس کا دین اور اخلاق ہر ایک پسندیدگی اور پیار کی نظر سے دیکھے ۔