قَالَ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا ﴿8﴾
‏ [جالندھری]‏ انہوں نے کہا پروردگار میرے ہاں کس طرح لڑکا (پیدا) ہوگا جس حال میں کہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ گیا ہوں ‏
تفسیر ابن كثیر
بشارت قبولیت سن کر ۔
حضرت زکریا علیہ السلام اپنی دعا کی قبولیت اور اپنے ہاں لڑکا ہونے کی بشارت سن کر خوشی اور تعجب سے کیفیت دریافت کرنے لگے کہ بظاہر اسباب تو یہ امر مستعد اور ناممکن معلوم ہوتا ہے ۔ دونوں جانب سے حالت ناامیدی کی ہے ۔ بیوی بانجھ جس سے اب تک اولاد نہیں ہوئی میں بوڑھا اور بیحد بوڑھا جس کی ہڈیوں میں اب تو گودا بھی نہیں رہا خشک ٹہنی جیسا ہوگیا ہوں گھر والی بھی بڑھیا پھوس ہو گئی ہے پھر ہمارے ہاں اولاد کیسے ہوگی؟ غرض رب العالمین سے کیفیت بوجہ تعجب وخوشی دریافت کی ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ میں تمام سنتوں کو جانتا ہوں لیکن مجھے یہ معلوم نہیں ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ظہر عصر میں پڑھتے تھے یا نہیں؟ اور نہ یہ معلوم ہے کہ اس لفظ کو عتیا پڑھتے تھے یا عسیا (احمد) فرشتے نے جواب دیا کہ یہ تو وعدہ ہو چکا اسی حالت میں اسی بیوی سے تمہارے ہاں لڑکا ہوگا اللہ کے ذمے یہ کام مشکل نہیں ۔ اس سے زیادہ تعجب والا اور اس سے بڑی قدرت والا کام تو تم خود دیکھ چکے ہو اور وہ خود تمہارا وجود ہے جو کچھ نہ تھا اور اللہ تعالٰی نے بنا دیا ۔ پس جو تمہاری پیدائش پر قادر تھا وہ تمہارے ہاں اولاد دینے پر بھی قادر ہے ۔ جسے فرمان ہے (ہل اتی علی لانسان حین من الدہر لم یکن شیأا مذکورا) یعنی یقینا انسان پر اس کے زمانے کا ایسا وقت بھی گزرا ہے جس میں وہ کوئی قابل ذکر چیز ہی نہ تھا ۔