أَسْمِعْ بِهِمْ وَأَبْصِرْ يَوْمَ يَأْتُونَنَا ۖ لَكِنِ الظَّالِمُونَ الْيَوْمَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ ﴿38﴾
‏ [جالندھری]‏ اور وہ جس دن ہمارے سامنے آئیں گے کیسے سننے والے اور کیسے دیکھنے والے ہوں گے مگر ظالم آج صریح گمراہی میں ہیں ‏
تفسیر ابن كثیر
قیامت کا دن دوزخیوں کے لئے یوم حسرت ۔
ارشاد ہے کہ آج دنیا میں یہ کفار آنکھیں بند کئے ہوئے اور کانوں میں جیسے ٹھونسے ہوئے ہیں ، لیکن قیامت کے دن ان کی آنکھیں خوب روشن ہوجائیں گی اور کان بھی خوب کھل جائیں گے ۔ جیسے فرمان الہٰی ہے (ولو تری اذا المجرمون ناکسوا روسہم عند ربہم ربنا ابصرنا وسمعنا) الخ کاش کہ تو دیکھتا جب یہ گنہگار لوگ اپنے رب کے سامنے شرمسار سرنگوں کھڑے ہوئے کہہ رہے ہوں گے کہ اے اللہ ہم نے دیکھا سنا ۔ الخ پس اس دن نہ دیکھنا کام آئے نہ سننا نہ حسرت وافسوس کرنا نہ واویلا کرنا ۔ اگر یہ لوگ اپنی آنکھوں اور اپنے کانوں سے دنیا میں کام لے کر اللہ کے دین کو مان لیتے تو آج انہیں حسرت وافسوس نہ کرنا پڑتا اس دن آنکھیں کھولیں گے اور آج اندھے بہرے بنے پھرتے ہیں نہ ہدایت کو طلب کرتے ہیں نہ دیکھتے ہیں نہ بھلی باتیں سنتے ہیں نہ مانتے ہیں۔ مخلوق کو اس حسرت والے دن سے خبردار کر دیجئے جب کہ تمام کام فیصل کر دیے جائیں گے ، جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں بھیج دیے جائیں گے ۔ اس حسرت وندامت کے دن سے یہ آج غافل ہو رہے ہیں بلکہ ایمان ویقین بھی رکھتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنتیوں کے جنت میں اور دوزخیوں کے دوزخ میں چلے جانے کے بعدموت کو ایک بھیڑیے کی شکل میں لایا جائے گا اور جنت دوزخ کے درمیان کھڑا کیا جائے گا پھر اہل جنت سے پوچھا جائے گا کہ اسے جانتے ہو ؟ وہ دیکھ کر کہیں گے کہ ہاں یہ موت ہے دوزخیوں سے بھی یہ سوال ہوگا اور وہ بھی یہی جواب دیں گے ۔ اب حکم ہوگا اور موت کو ذبح کر دیا جائے گا اور ندا کر دی جائے گی کہ اہل جنت تمہارے لئے ہمیشہ موت نہیں اور اہل جہنم تمہارے لئے بھی اب ہمیشہ موت نہیں ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت (وانذرہم) الخ ، تلاوت فرمائی ۔ اور آپ نے اشارہ کیا اور فرمایا اہل دنیا غفلت دنیا میں ہیں (مسندامام احمد ) ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک واقعہ مطول بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ ہر شخص اپنے دوزخ اور جنت کے گھر کو دیکھ رہا ہوگا وہ دن ہی حسرت و افسوس کاہے جہنمی اپنے جنتی گھر کو دیکھ رہا ہوگا اور اس سے کہاجاتا ہوگا کہ اگر تم عمل کرتے تو تمہیں یہ جگہ ملتی وہ حسرت وافسوس کرنے لگیں گے ادھر جنتیوں کو ان کا جہنم کا گھر دکھا کر فرمایا جائے گا کہ اگر اللہ کا احسان تم پر نہ ہوتا تو تم یہاں ہوتے ۔ اور روایت میں ہے کہ موت کو ذبح کرکے جب ہمیشہ کے لیے آواز لگادی جائے گی اس وقت جنتی تو اس قدر خوش ہوں گے کہ اگر اللہ نہ بچائے تو مارے خوشی کے مر جائیں اور جہنمی اس قدر رنجیدہ ہو کر چیخیں گے کہ اگر موت ہوتی تو ہلاک ہوجائیں ۔ پس اس آیت کا یہی مطلب ہے یہ وقت حسرت کا بھی ہوگا اور کام کے خاتمہ کا بھی یہی ہوگا ۔ پس اس آیت کا مطلب ہے یہ وقت حسرت بھی ہوگا اور کام کا بھی یہی ہوگا ۔ پس یوم الحسرت بھی قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے چنانچہ اور آیت میں ہے (ان تقول نفس یاحسرتی علی ما فرطت فی جنب اللہ) الخ ، پھر بتایا کہ خالق مالک متصرف اللہ ہی ہے سب اسی کی ملکیت ہے اور سب کو فنا ہے باقی صرف اللہ تبارک وتعالیٰ جل شانہ ہی ہے کوئی ملکیت اور تصرف کا سچا دعویدار بجز اس کے کوئی نہیں تمام خلق کا وارث حاکم وہی ہے اس کی ذات ظلم سے پاک ہے خلیفہ اسلام امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے عبد الحمید بن عبدالرحمن کو کوفے میں خط لکھا ، جس میں لکھا حمد وصلوۃ کے بعد اللہ نے روز اول سے ہی ساری مخلوق پر فنا لکھ دی ہے ۔ سب کو اس کی طرف پہنچنا ہے ، اس نے اپنی نازل کردہ سچی کتاب میں جسے اپنے علم سے محفوظ کئے ہوئے ہے اور جس کی نگہبانی اپنے فرشتوں سے کرا رہا ہے لکھ دیا ہے کہ زمین کا اور اس کے اوپر جو ہیں ان کا وارث وہی ہے اور اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے ۔