جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدَ الرَّحْمَنُ عِبَادَهُ بِالْغَيْبِ ۚ إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا ﴿61﴾
‏ [جالندھری]‏ (یعنی) بہشت جاودانی (میں) جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے (اور جو کوئی آنکھوں سے) پوشیدہ (ہے) بیشک اس کا وعدہ (نیکوکاروں کے سامنے) آنے والا ہے ‏
تفسیر ابن كثیر
اللہ تعالٰی کے وعدے برحق ہیں ۔
جن جنتوں میں گناہوں سے توبہ کرنے والے داخل ہوں گے یہ جنتیں ہمیشہ والی ہوں گی جن کا غائبانہ وعدہ ان سے ان کا رب کر چکا ہے ان جنتوں کو انہوں نے دیکھا نہیں لیکن تاہم دیکھنے سے بھی زیادہ انہیں ان پر یقین وایمان ہے بات بھی یہی ہے کہ اللہ کے وعدے اٹل ہوتے ہیں وہ حقائق ہیں جو سامنے آکر ہی رہیں گے ۔ نہ اللہ وعدہ خلافی کرے نہ وعدے کو بدلے یہ لوگ وہاں ضرور پہنچائے جائیں گے اور اسے ضرور پائیں گے ۔ ماتیاکے معنی اتیا کے بھی آتے ہیں اور یہ بھی ہے کہ جہاں ہم جائیں وہ ہمارے پاس آہی گیا ۔ جیسے کہتے ہیں مجھ پر پچاس سال آئے یا میں پچاس سال کو پہنچا ۔ مطلب دونوں جملوں کا ایک ہی ہوتا ہے ۔ ناممکن ہے کہ ان جنتوں میں کوئی لغو اور ناپسندیدہ کلام ان کے کانوں میں پڑے ۔ صرف مبارک سلامت کی دھوم ہوگی ۔ چاروں طرف سے اور خصوصا فرشتوں کی پاک زبانی یہی مبارک صدائیں کان میں گونجتی رہیں گی ۔ جیسے سورہ واقعہ میں ہے (لایسمعون فیہا لغوا ولا تاثیما الا قیلا سلاما سلاما) وہاں کوئی بیہودہ اور خلاف طبع سخن نہ سنیں گے بجر سلام اور سلامتی کے ۔ یہ استثنار منقطع ہے ۔ صبح شام پاک طیب عمدہ خوش ذائقہ روزیاں بلا تکلف وتکلیف بےمشقت وزحمت چلی آئیں گی ۔ لیکن یہ نہ سمجھا جائے کہ جنت میں بھی دن رات ہونگے نہیں بلکہ ان انوار سے ان وقتوں کو جنتی پہچان لیں گے جو اللہ کی طرف سے مقرر ہیں ۔ چنانچہ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پہلی جماعت جو جنت میں جائے گی ان کے چہرے چودویں رات کے چاند جیسے روشن اور نورانی ہوں گے ۔ نہ وہاں انہیں تھوک آئے گا نہ ناک آئے گی نہ پیشاب پاخانہ ۔ ان کے برتن اور فرنیچر سونے کے ہوں گے ان کا بخور خوشبودار اگر ہوگا ، ان کے پسینے مشک بو ہوں گے ، ہر ایک جنتی مرد کی دو بیویاں تو ایسی ہوں گی کہ ان کے پنڈے کی صفائی سے ان کی پنڈلیوں کی نلی کا گودا تک باہر نظر آئے ۔ ان سب جنتوں میں نہ تو کسی کو کسی سے عداوت ہوگی نہ بغض سب ایک دل ہوں گے ۔ کوئی اختلاف باہم دیگر نہ ہوگا ۔ صبح شام تسبیح میں گزریں گے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں شہید لوگ اس وقت جنت کی ایک نہر کے کنارے جنت کے دروازے کے پاس سرخ رنگ قبوں میں ہیں ۔ صبح شام روزی پہنچائے جاتے ہیں (مسند ) پس صبح وشام باعتبار دنیا کے ہے وہاں رات نہیں بلکہ ہروقت نور کاسماں ہے پردے گرجانے اور دروازے بند ہوجانے سے اہل جنت وقت شام کو اسی طرح پردوں کے ہٹ جانے اور دروازوں کے کھل جانے سے صبح کے وقت کو جان لیے گے ۔ ان دروازوں کا کھلنا بند ہونا بھی جنتیوں کے اشاروں اور حکموں پر ہوگا ۔ یہ دروازے بھی اس قدر صاف شفاف آئینہ نما ہیں کہ باہر کی چیزیں اندر سے نظر آئیں ۔ چونکہ دنیا میں دن رات کی عادت تھی اس لئے جو وقت جب چاہیں گے پائیں گے ۔ چونکہ عرب صبح شام ہی کھانا کھانے کے عادی تھے اس لئے جنتی رزق کا وقت بھی وہی بتایا گیا ہے ورنہ جنتی جو چاہیں جب چاہیں موجود پائیں گے ۔ چنانچہ ایک غریب منکر حدیث میں ہے کہ صبح شام کا ٹھیکہ ہے ، رزق تو بیشمار ہر وقت موجود ہے لیکن اللہ کے دوستوں کے پاس ان اوقات میں حوریں آئیں گی جن میں ادنی درجے کی وہ ہوں گی جو صرف زعفران سے پیدا کی گئی ہیں ۔ یہ نعمتوں والی جنتیں انہیں ملیں گی جو ظاہر باطن اللہ کے فرمانبردار تھے جو غصہ پی جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے تھے جن کی صفیتں (قد افلح المومنون) کے شروع میں بیان ہوئی ہیں اور فرمایا گیا ہے کہ یہی وارث فردوس بریں ہیں جن کے لئے دوامی طور پر جنت الفردوس اللہ نے لکھ دی ہے (اللہ اے اللہ ہمیں بھی تو اپنی رحمت کاملہ سے فردوس بریں میں پہنچا ، آمین )