وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَيْكَ مَرَّةً أُخْرَى ﴿37﴾
‏ [جالندھری]‏ اور ہم نے تم پر ایک بار اور بھی احسان کیا تھا ‏
تفسیر ابن كثیر
جس سال قتل موقوف تھا اس سال تو حضرت ہارون علیہ السلام پیدا ہوئے اور جس سال قتل عام بچوں کا جاری تھا اس برس حضرت موسیٰ علیہ السلام تولد ہوئے۔ آپ کی والدہ کی اس وقت کی گھبراہٹ اور پریشانی کا کیا پوچھنا؟ بے اندازہ تھی۔ ایک فتنہ تو یہ تھا۔ چنانچہ یہ خطرہ اس وقت دفع ہوگیا جب کہ اللہ کی وحی ان کے پاس آئی کہ ڈر خوف نہ کر ہم اسے تیری طرف پھر لوٹائیں گے اور اسے اپنا رسول بنائیں گے۔ چنانچہ بحکم الٰہی آپ نے اپنے بچے کو صندوق میں بند کر کے دریا میں بہا دیا جب صندوق نظروں سے اوجھل ہو گیا تو شیطان نے دل میں وسوسے ڈالنے شروع کئے کہ افسوس اس سے تو یہی بہتر تھا کہ میرے سامنے ہی اسے ذبح کر دیا جاتا تو میں اسے خود ہی کفناتی دفناتی تو سہی لیکن اب تو میں نے خود اسے مچھلیوں کا شکار بنایا۔ یہ صندوق یونہی بہتا ہوا خاص فرعونی گھاٹ سے جا لگا وہاں اس وقت محل کی لونڈیاں موجود تھیں انہوں نے اس صندوق کو اٹھا لیا اور ارادہ کیا کہ کھول کر دیکھیں لیکن پھر ڈر گئیں کہ ایسا نہ ہو کہ چوری کا الزام لگے یونہی مقفل صندوق ملکہ فرعون کے پاس پہنچا دیا۔ یہ بادشاہ بیگم کے سامنے کھولا گیا تو اس میں سے چاند جیسی صورت کا ایک چھوٹا سا معصوم بچہ نکلا جسے دیکھتے ہی فرعون کی بیوی صاحبہ کا دل محبت کے جوش سے اچھلنے لگا۔ ادھر ام موسیٰ کی حالت غیر ہو گئی سوائے اپنے اس پیارے بچے کے خیال کے دل میں اور کوئی تصور ہی نہ تھا۔ ادھر ان قصائیوں کو جو حکومت کی طرف سے بچوں کے قتل کے محکمے کے ملازم تھے معلوم ہوا تو وہ اپنی چھریاں تیز کئے ہوئے بڑھے اور ملکہ سے تقاضا کیا کہ بچہ انہیں سونپ دیں تاکہ وہ اسے ذبح کر ڈالیں۔ یہ دوسرا فتنہ تھا آخر ملکہ نے جواب دیا کہ ٹھہرو میں خود بادشاہ سے ملتی ہوں اور اس بچے کو طلب کرتی ہوں اگر وہ مجھے دے دیں تو خیر ورنہ تمہیں اختیار ہے۔ چنانچہ آپ آئیں اور بادشاہ سے کہا کہ یہ بچہ تو میری اور آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہو گا اس خبیث نے کہا بس تم ہی اس سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی رکھو میری ٹھنڈک وہ کیوں ہونے لگا؟ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ 
اللہ تعالٰی کی تدابیر اعلیٰ اور محروم ہدایت فرعون ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہ حلف بیان فرماتے ہیں کہ اگر وہ بھی کہہ دیتا کہ ہاں بیشک وہ میری آنکھوں کی بھی ٹھنڈک ہے تو اللہ تعالٰی اسے بھی ضرور راہ راست دکھا دیتا جیسا کہ اس کی بیوی صاحبہ مشرف بہ ہدایت ہوئی لیکن اس نے خود اس سے محروم رہنا چاہا اللہ نے بھی اسے محروم کر دیا۔ الغرض فرعون کو جوں توں راضی رضامند کر کے اس بچے کے پالنے کی اجازت لے کر آپ آئیں اب محل کی جتنی دایہ تھیں سب کو جمع کیا ایک ایک کی گود میں بچہ دیا گیا لیکن اللہ تعالٰی نے سب کا دودھ آپ پر حرام کر دیا آپ نے کسی کا دودھ منہ میں لیا ہی نہیں۔ اس سے ملکہ گھبرائیں کہ یہ تو بہت ہی برا ہوا۔ یہ پیارا بچہ یونہی ہلاک ہو جائے گا۔ آخر سوچ کر حکم دیا کہ انہیں باہر لے جاؤ ادھر ادھر تلاش کرو اور اگر کسی کا دودھ یہ معصوم قبول کرے تو اسے بہ منت سونپ دو۔ باہر بازاروں میں میلہ سا لگ گیا ہر شخص اس سعادت سے مالا مال ہونا چاہتا تھا لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کسی کا دودھ نہ پیا۔ آپ کی والدہ نے اپنی بڑی صاحبزادی آپ کی بہن کو باہر بھیج رکھا تھا کہ وہ دیکھیں کیا ہوتا ہے؟ وہ اس مجمع میں موجود تھیں اور تمام واقعات دیکھ سن رہی تھیں جب یہ لوگ عاجز آ گئے تو آپ نے فرمایا اگر تم کہو تو میں ایک گھرانہ ایسا بتلاؤں جو اس کی نگہبانی کرے اور ہو بھی اس کا خیر خواہ یہ کہنا تھا کہ لوگوں کو شک ہوا کہ ضرور یہ لڑکی اس بچے کو جانتی ہے اور اس کے گھر کو بھی پہچانتی ہے۔ اے ابن جبیر یہ تھا تیسرا فتنہ۔ لیکن اللہ نے لڑکی کو سمجھ دے دی اور اس نے جھٹ سے کہا کہ بھلا تم اتنا نہیں سمجھے کون بدنصیب ایسا ہو گا جو اس بچے کی خیر خواہی یا پرورش میں کمی کرے جو بچہ ہماری ملککہ کا پیارا ہے۔ کون نہ چاہے گا کہ یہ ہمارے ہاں پلے تاکہ انعام و اکرام سے اس کا گھر بھر جائے۔ یہ سن کر سب کی سمجھ میں آ گیا اسے چھوڑ دیا اور کہا بتا تو کون سی دایہ اس کے لئے تجویز کرتی ہے؟ اس نے کہا میں ابھی لائی دوڑی ہوئی گئیں اور والدہ کو یہ خوش خبری سنائی والدہ صاحب شوق و امید سے آئیں اپنے پیارے بچے کو گود میں لیا اپنا دودھ منہ میں دیا بچے نے پیٹ بھر کر پیا اسی وقت شاہی محلات میں یہ خوشخبری پہنچائی گئی ملکہ کا حکم ہوا کہ فوراً اس دایہ کو اور بچے کو میرے پاس لاؤ جب ماں بیٹا پہنچے تو اپنے سامنے دودھ پلوایا اور یہ دیکھ کر کہ بچہ اچھی طرح دودھ پیتا ہے بہت ہی خوش ہوئیں اور فرمانے لگیں کہ دائی اماں مجھے اس بچے سے وہ محبت ہے جو دنیا کی کسی اور چیز سے نہیں تم یہیں محل میں رہو اور اس بچے کی پرورش کرو۔ لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ صاحبہ کے سامنے اللہ کا وعدہ تھا انہیں یقین کامل تھا اس لئے آپ ذرا رکیں اور فرمایا کہ یہ تو ناممکن ہے کہ میں اپنے گھر کو اور اپنے بچوں کو چھوڑ کر یہاں رہوں۔ اگر آپ چاہتی ہیں تو یہ بچہ میرے سپرد کر دیں میں اسے اپنے گھر لے جاتی ہوں ان کی پرورش میں کوئی کوتاہی نہ کروں گی ملکہ صاحبہ نے مجبوراً اس بات کو بھی مان لیا اور آپ اسی دن خوشی خوشی اپنے بچے کو لئے ہوئے گھر آ گئیں۔ اس بچے کی وجہ سے اس محلے کے بنو اسرائیل بھی فرعونی مظالم سے رہائی پا گئے۔ جب کچھ زمانہ گزر گیا تو بادشاہ بیگم نے حکم بھیجا کہ کسی دن میرے بچے کو میرے پاس لاؤ ایک دن مقرر ہو گیا تمام ارکان سلطنت اور درباریوں کو حکم ہوا کہ آج میرا بچہ میرے پاس آئے گا تم سب قدم قدم پر اس کا استقبال کرو اور دھوم دھام سے نذریں دیتے ہوئے اسے میرے محل سرائے تک لاؤ۔ چنانچہ جب سواری روانہ ہوئی وہاں سے لے کر محل سرائے سلطانی تک برابر تحفے تحائف نذریں اور ہدیے پیشکش ہوتے رہے اور بڑی ہی عزت و اکرام کے ساتھ آپ یہاں پہنچے تو خود بیگم نے بھی خوشی خوشی بہت بڑی رقم پیش کی اور بڑی خوشی منائی گئی۔ پھر کہنے لگی کہ میں تو اسے بادشاہ کے پاس لے جاؤں گی وہ بھی اسے انعام و اکرام دیں گے، لے گئیں اور بادشاہ کی گود میں لٹا دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کی داڑھی پکڑ کر زور سے گھسیٹی۔ فرعون کھٹک گیا اور اس کے درباریوں نے کہنا شروع کیا کہ کیا عجب یہی وہ لڑکا ہو آپ اسے فوراً قتل کرا دیجئے۔ اے ابن جبیر یہ تھا چوتھا فتنہ ملکہ بیتاب ہو کر بول اٹھیں اے بادشاہ کیا ارادہ کر رہے ہو؟ آپ اسے مجھے دے چکے ہیں میں اسے اپنا بیٹا بنا چکی ہوں۔ بادشاہ نے کہا یہ سب ٹھیک ہے لیکن دیکھو تو اس نے تو آتے ہی داڑھی پکڑ کر مجھے نیچا کر دیا گویا یہی میرا گرانے والا اور مجھے تاخت و تاراج کرنے والا ہے۔ بیگم صاحبہ نے فرمایا بادشاہ بچوں کو ان چیزوں کی کیا تمیز سنو میں ایک فیصلہ کن بات بتاؤں اس کے سامنے دو انگارے آگ کے سرخ رکھ دو اور دو موتی آبدار چمکتے ہوئے رکھ دو پھر دیکھو یہ کیا اٹھاتا ہے اگر موتی اٹھا لے تو سمجھنا کہ اس میں عقل ہے اور اگر آگ کے انگارے تھام لے تو سمجھ لینا کہ عقل نہیں جب عقل و تمیز نہیں تو اس کی داڑھی پکڑ لینے پر اتنے لمبے خیالات کر کے اس کی جان کا دشمن بن جانا کون سی دانائی کی بات ہے چنانچہ یہی کیا گیا دونوں چیزیں آپ کے سامنے رکھی گئیں آپ نے دہکتے ہوئے انگارے اٹھا لئے اسی وقت وہ چھین لئے کہ ایسا نہ ہو ہاتھ جل جائیں اب فرعون کا غصہ ٹھنڈا ہوا اور اس کا بدلہ ہوا رخ ٹھیک ہو گیا۔ حق تو یہ ہے کہ اللہ کو جو کام کرنا مقصود ہوتا ہے اس کے قدرتی اسباب مہیا ہو ہی جاتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دربار فرعون میں فرعون کے خاص محل میں فرعون کی بیوی کی گود میں ہی پرورش ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ آپ اچھی عمر کو پہنچ گئے اور بالغ ہو گئے۔ اب تو فرعونیوں کے جو مظالم اسرائیلیوں پر ہو رہے تھے ان میں بھی کمی ہو گئی تھی سب امن و امان سے تھے۔ ایک دن حضرت موسیٰ علیہ السلام کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں ایک فرعونی اور ایک اسرائیلی کی لڑائی ہو رہی تھی اسرائیلی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فریاد کی آپ کو سخت غصہ آیا اسلئے کہ اس وقت وہ فرعونی اس بنی اسرائیل کو دبوچے ہوئے تھا آپ نے اسے ایک مکا مارا اللہ کی شان مکا لگتے ہی وہ مر گیا یہ تو لوگوں کو عموماً معلوم تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیلیوں کی طرف داری کرتے ہیں لیکن لوگ اس کی وجہ اب تک یہی سمجھتے تھے کہ چونکہ آپ نے انہی میں دودھ پیا ہے اس لئے ان کے طرفدار ہیں اصلی راز کا علم تو صرف آپ کی والدہ کو تھا اور ممکن ہے اللہ تعالٰی نے اپنے کلیم کو بھی معلوم کرا دیا ہو۔ اسے مردہ دیکھتے ہی موسیٰ علیہ السلام کانپ اٹھے کہ یہ تو شیطانی حرکت ہے وہ بہکانے والا اور کھلا دشمن ہے۔ پھر اللہ تعالٰی سے معافی مانگنے لگے کہ باری تعالٰی میں نے اپنی جان پر ظلم کیا تو معاف فرما پروردگار نے بھی آپ کی اس خطا سے درگزر فرما لیا وہ تو غفور و رحیم ہے ہی۔ چونکہ قتل کا معاملہ تھا آپ پھر بھی خوفزدہ ہی رہے تاک جھانک میں رہے کہ کہیں معاملہ کھل تو نہیں گیا۔