قَالَا رَبَّنَا إِنَّنَا نَخَافُ أَنْ يَفْرُطَ عَلَيْنَا أَوْ أَنْ يَطْغَى ﴿45﴾
‏ [جالندھری]‏ دونوں کہنے لگے کہ ہمارے پروردگار ہمیں خوف ہے کہ وہ ہم پر تعدی کرنے لگے یا زیادہ سرکش ہو جائے ‏
تفسیر ابن كثیر
اللہ کے سامنے اظہار بےبسی۔
اللہ کے ان دونوں رسولوں نے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہوئے اپنی کمزوری کی شکایت رب کے سامنے کی کہ ہمیں خوف ہے کہ فرعون کہیں ہم پر کوئی ظلم نہ کرے اور بدسلوکی سے پیش نہ آئے۔ ہماری آواز کو دبانے کے لئے جلدی سے ہمیں کسی مصیبت میں مبتلا نہ کر دے۔ اور ہمارے ساتھ نا انصافی سے پیش نہ آئے۔ رب العالم کی طرف سے ان کی تشفی کردی گئی۔ ارشاد ہوا کہ اس کاکچھ خوف نہ کھاؤ میں خود تمہارے ساتھ ہوں اور تمہاری اور اس کی بات چیت سنتا رہوں گا اور تمہارا حال دیکھتا رہوں گا کوئی بات مجھ پر مخفی نہیں رہ سکتی اس کی چوٹی میرے ہاتھ میں ہے وہ بغیر میری اجازت کے سانس بھی تو نہیں لے سکتا۔ میرے قبضے سے کبھی باہر نہیں نکل سکتا۔ میری حفاظت و نصرت تائید و مدد تمہارے ساتھ ہے۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جناب باری میں دعا کی کہ مجھے وہ دعا تعلیم فرمائی جائے جو میں فرعون کے پاس جاتے ہوئے پڑھ لیا کروں تو اللہ تعالٰی نے یہ دعا تعلیم فرمائی۔ ہیا شراھیا جس کے معنی عربی میں انا الحی قبل کل شئی والحی بعد کل شئی یعنی میں ہی ہوں سب سے پہلے زندہ اور سب سے بعد بھی زندہ۔ پھر انہیں بتلایا گیا کہ یہ فرعون کو کیا کہیں؟ اب عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں یہ گئے، دروازے پر ٹھہرے، اجازت مانگی، بڑی دیر کے بعد اجازت ملی۔ محمد بن اسحاق رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ دونوں پیغمبر دو سال تک روزانہ صبح شام فرعون کے ہاں جاتے رہے دربانوں سے کہتے رہے کہ ہم دونوں پیغمبروں کی آمد کی خبر بادشاہ سے کرو۔ لیکن فرعون کے ڈر کے مارے کسی نے خبر نہ کی دو سال کے بعد ایک روز اس کے ایک بےتکلف دوست نے جو بادشاہ سے ہسنی دل لگی بھی کر لیا کرتا تھا کہا کہ آپ کے دروازے پر ایک شخص کھڑا ہے اور ایک عجیب مزے کی بات کہہ رہا ہے وہ کہتا ہے کہ آپ کے سوا اس کا کوئی اور رب ہے اور اس کے رب نے اسے آپ کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اس نے کہا کیا میرے دروازے پر وہ ہے اس نے کہا ہاں۔ حکم دیا کہ اندر بلا لو چنانچہ آدمی گیا اور دونوں پیغمبر دربار میں آئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا میں رب العالمین کا رسول ہوں فرعون نے آپ کو پہچان لیا کہ یہ تو موسیٰ (علیہ السلام) ہے۔ سدی رحمتہ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ آپ مصر میں اپنے ہی گھر ٹھہرے تھے ماں نے اور بھائی نے پہلے تو آپ کو پہچانا نہیں گھر میں جو پکا تھا وہ مہمان سمجھ کر ان کے پاس لا رکھا اس کے بعد پہچانا سلام کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اللہ کا مجھے حکم ہوا ہے کہ میں اس بادشاہ کو اللہ کی طرف بلاؤں اور تمہاری نسبت فرمان ہوا ہے کہ تم میری تائید کرو۔ حضرت ہارون علیہ السلام نے فرمایا پھر بسم اللہ کیجئے۔ رات کو دونوں صاحب بادشاہ کے ہاں گئے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لکڑی سے کواڑ کھٹکھٹائے۔ فرعون آگ بگولا ہو گیا کہ اتنا بڑا دلیر آدمی کون آگیا؟ جو یوں بےساختہ دربار کے آداب کے خلاف اپنی لکڑی سے مجھے ہوشیار کر رہا ہے؟ درباریوں نے کہا حضرت کچھ نہیں یونہی ایک مجنوں آدمی ہے کہتا پھرتا ہے کہ میں رسول ہوں۔ فرعون نے حکم دیا کہ اسے میرے سامنے پیش کرو۔ چنانچہ حضرت ہارون علیہ السلام کو لئے ہوئے آپ اس کے پاس گئے اور اس سے فرمایا کہ ہم اللہ کے رسول ہیں تو ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے انہیں سزائیں نہ کر ہم رب العالمین کیطرف سے اپنی رسالت کی دلیلیں اور معجزے لے کر آئے ہیں اگر توہماری بات مان لے تو تجھ پر اللہ کی طرف سے سلامتی نازل ہوگی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جو خط شاہ روم ہرقل کے نام لکھا تھا اس میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد یہ مضمون تھا کہ یہ خط محمد رسول اللہ کی طرف سے شاہ روم ہرقل کے نام ہے جو ہدایت کی پیروی کرے اس پر سلام ہو۔ اس کے بعد یہ کہ تم اسلام قبول کر لو تو سلامت رہو گے اللہ تعالٰی دوہرا اجر عنایت فرمائے گا۔ مسیلمہ کذاب نے صادق و مصدوق ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خط لکھا تھا جس میں تحریر تھا کہ یہ خط اللہ کے رسول مسلیمہ کی جانب سے اللہ کے رسول محمد کے نام ، آپ پر سلام ہو، میں نے آپ کو شریک کار کر لیا ہے شہری آپ کے لئے اور دیہاتی میرے لئے۔ یہ قریشی تو بڑے ہی ظالم لوگ ہیں۔ اس کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لکھا کہ یہ محمد رسول اللہ کی طرف سے مسلیمہ کذاب کے نام ہے سلام ہو ان پر جو ہدایت کی تابعداری کریں سن لے زمین اللہ کی ملکیت ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے اس کا وارث بناتا ہے انجام کے لحاظ سے بھلے لوگ وہ ہیں جن کے دل خوف الٰہی سے پر ہوں۔ الغرض رسول اللہ کلیم اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی فرعون سے یہی کہا کہ سلام ان پر ہے جو ہدایت کے پیرو ہوں۔ پھر فرماتا ہے کہ ہمیں بذریعہ وحی الٰہی یہ بات معلوم کرائی گئی ہے کہ عذاب کے لائق صرف وہی لوگ ہیں جو اللہ کے کلام کو جھٹلائیں اور اللہ کی باتوں کے ماننے سے انکار کر جائیں۔ جیسے ارشاد ہے (فاما من طغی واثر الحیوۃ الدنیا فان الجحیم ھی الماوی جو شخص سرکشی کرے اور دنیا کی زندگانی پر مر مٹ کر اسی کو پسند کر لے اس کا آخری ٹھکانا جہنم ہی ہے۔ اور آیتوں میں ہے کہ میں تمہیں شعلے مارنے والی آگ جہنم سے ڈرا رہا ہوں جس میں صرف وہ بدبخت داخل ہوں گے جو جھٹلائیں اور منہ موڑ لیں اور آیتوں میں ہے کہ اس نے نہ تو مانا نہ نماز ادا کی بلکہ دل سے منکر رہا اور کام فرمان کے خلاف کئے۔